تبدیلی کی سرشت اور فتویٰ جدید

on 2016-04-26


انسان کی سرشت تبدیل ہو جانا ہے، اس کے لیے اسے کسی خارجی دباؤ کی ضرورت نہیں پڑتی- مثلاً آپ کسی ایک ہی جوتے کو سالہ سال پہننے کو پسند نہیں کرتے، سال دو کے بعد ہی اسے تبدیل کرنے کی خواہش آپ میں جنم لینے لگتی ہے چاہے اس جوتے کی حالت بہتر ہی کیوں نہ ہو- اس تبدیلی پر اثر انداز ہونے والے خارجی عناصر میں آپ کی تنخواہ ہے یا آپ کا شیخ و میمن ہونا- آپ ہفتے کے سات دن اور ہر دن کے تین اوقات میں فقط روٹی کھانا پسند نہیں کرتے، اگر بہت ہی برے حالات بھی ہوں تو ہفتہ میں ایک آدھ دن آپ چاول بھی تناول کرتے ہیں- پھر خود روٹی کے ساتھ سالن کو تبدیل کرتے رہتے ہیں- آپ روز بینگن کے ساتھ روٹی کھا کے دکھائیں- ایسا تو حکماء مریضوں کے ساتھ کرتے ہیں کہ صبح دوپہر شام کدو چھیل کے کچا کھانا ہے- ہم اپنے گھروں میں اپنی خواتین کو دیکھتے ہیں کہ ہر سال وہ کمرے کی سینٹنگ تبدیل کر دیتی ہیں، بیڈ بھی وہی ہوتا ہے، صوفہ بھی وہی ہوتا ہے، الماری اور شو کیس بھی وہی ہوتا ہے لیکن تبدیل ہونے کی سرشت مجبور کرتی ہے کہ کچھ آگے پیچھے کر کے ہی حلیہ بدل دیا جائے- اس کار جہاں میں باریک بینی سے جائزہ لیجئے تبدیل ہونے کی یہ اندرونی خواہش آپ کو پورے معاشرے میں نظر آئے گی- لیکن آپ نے دیکھا کہ کبھی انسان نے سوچا ہو کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کا جو طریقہ بتایا ہو انسان کی جبلت نے اسے بدلنے کی خواہش ظاہر کی ہو، خدا کو سجدہ ہی کرنا ہے نا، تو کیا مغرب میں خدا ہے مشرق میں نہیں ہوگا؟ کیوں نہ رخ بدل لیا جائے؟ چلیں ایک ہی سورۃ فاتحہ بار بار پڑھنے سے اکتاہت پیدا ہو گئی ہو، قرآن مجید تو پورا معتبر اور فصیلت والا ہے سورۃ فاتحہ کی جگہ کوئی اور سورت پڑھ لیتے ہیں؟ ایسی سوچ نہیں آتی کیوں کہ یقین ٹوٹنے لگتا ہے، تعلق کمزور ہونے لگتا ہے- یہاں دین کی تقریبا ساری ہی تعلیمات اور اعمال رکھے جا سکتے ہیں اور صاف محسوس کیا جا سکتا ہے کہ الہام خود ایک خارجی عنصر ہے جسے ایمان کی طاقت بہم پہنچ رہی ہے، انسان کی دماغی ارتقاء سے ان کا مادی وجود بدل رہا ہے، ایسے میں شریعت کے فروع میں تبدیلی کا فطری جذبہ پیدا ہوتا ہے لیکن وہ اپنے ایمان کے بچاؤ کے لیے اسے روکنے کی کوشش کرتا ہے- اور اگر ایمان پر اس کی گرفت کمزور پڑ گئی تو پھر وہ اگلا سوال کرتا ہے کہ مصافحہ درست تو پھر معانقہ بھی درست ہونا چاہیے- اور اگر لونڈی حلال تھی تو گرل فرینڈ بھی حلال کرو- اور پھر کوئی اس کو اجتہاد کا نام دے تو ہمیں ضرور سوچنا چاہیے کہ خواہش کو پورا کرنے کا نام اجتہاد ہوگا؟ اب ہم سوچنے لگیں گے کہ کیا مذہب کو جامد بنانے والی سوچ پیدا کی جا رہی ہے- نہیں انسان کو بنانے والا خالق اپنی کاریگری سے خوب واقف ہے، اس لیے اپنی تعلیمات اور ہدایات کی روشنی میں بدلنے کی آزادی دیتا ہے لیکن اس آزادی کو خواہش کے تابع رکھنے کے بجائے ایمان کے تابع بناتا ہے- لیکن اکثر ایسا ہوا ہے کہ حد درجہ انتہا پسندی، مسلمان کو مادی وسائل جیسے لاوڈ اسپیکر کو برتنے سے بھی روکتی ہے اور حد درجہ آزاد روی، خواتین سے مصافحے کی اجازت دے دیتی ہے

فکر مودودیؒ: ایک مباحثہ

on 2016-03-20

پہلا حصہ
بعض احباب، مودودیؒ اور جنابِ غامدی کے خلاف اہل مدارس کا ردعمل دیکھ کر دونوں کو ایک ہی پلڑے میں رکھ دیتے ہیں، اہل مدارس کا ایک مخالفانہ مزاج ہے کہ جس سے اختلاف پیدا ہوا اس کیخلاف فتوے تراشے، اس کے نام کے ہجوں پر تحقیق کر کے مقدمات تیار کیے اور کچھ کثر رہ گئی تو مخالف کی تحریروں سے چھوٹے چھوٹے فقرے نکال کر انہیں خلافِ شریعت اور خلاف اسلام ثابت کرنے کی کوشش کی- یہ مزاج برصغیرمیں باپ دادا کی وراثت کی طرح جاری و ساری ہے، ہمارے نوجوان طبقہ علماء کو بڑے ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچنا چاہیے کہ اس مزاج نے انہیں کیا دیا ہے اورکیا لیا ہے-
علم چاہے دنیا کا ہو یا دین کا، کسی کی میراث نہیں ہے، اور اللہ کا پیغام تو ہرانسان کے لیے عام ہے، وہ خود سمجھے، مختلف علمی سرمایے سے معاونت حاصل کرے یا براہ راست اہل مدارس سے رہنمائی لے، یہ انسان پر منحصر ہے، لہٰذا مدارس سے باہر بھی مسلمانوں میں کچھ ایسے لوگ اٹھ سکتے ہیں جو دین کو خلوص اور انہماک سے پڑھیں، سمجھیں اور دوسروں کو سمجھائیں، کیونکہ مسلمانوں کے علمی سلسلے کا زخیرہ مدارس میں موجود ہے وہ زبان بذبان اور سینہ بہ سینہ اگلی نسلوں تک منتقل بھی ہو رہا ہے، اگر وہ محسوس کرتے ہیں کہ کوئی آزاد مسلمان فہم میں حد درجہ کمی پیشی کا شکار ہے تو انہیں دلائل و برہان اور تقویٰ و خشیت الہیٰ کے ساتھ سمجھانا چاہیے-
یہیں وہ آزاد مسلمان جو مدارس کے بجائے اپنی کوششوں سے دین کو سمجھنے کی کوشش میں مصروف ہیں، انہیں بھی یہ احساس رکھنا ہوگا کہ روایت سے انحراف کا رویہ تحقیقی اور علمی رویہ نہیں ہے، آپ روایت کو دریا بُرد کر کے نئے سرے سے دین کی تشریح کا بیڑا اٹھانے کی کوشش نہیں کر سکتے اور کریں بھی گے تو وہ سواد اعظم میں قبول نہیں ہو سکے گی- تاریخ اسلام میں ایسے کئی نیک اور صالح شخصیات گزری ہیں جنہوں نے یہ کوشش کر کے دیکھ لی، آج ان میں سے چند ایک کے نام ہی باقی ہیں- اسلام نے جو زبان اور الفاظ چنے وہ اپنے وقت میں مروج تھے، یہی وجہ ہے قرآن مجید عرب کے بدوں کو بھی ویسے ہی سمجھ میں آیا جیسے پڑھے لکھوں کو آیا- وقت بدلتے بدلتے لفظ اپنے اصل مطالب کھو بیٹھتے ہیں یا بدل جاتے ہیں، وقت کے مفہوم تک پہنچے کے لیے ہمیں روایت کا ہی سہارا درکار ہوتا ہے، اس کا قطعاً مطلب نہیں کہ روایتی آراء سے باہر سوچا ہی نہیں جا سکتا اور اجتہاد کے دروازے بند دینا چاہیے، لیکن یہ سب کچھ اس سہارے کے بغیر آپ کو کہیں سے کہیں اٹھا کر پھینک سکتا ہے-
اس سارے پس منظر کے ساتھ ہم سب کو مودودیؒ اور جنابِ غامدی میں فرق قائم رکھنا چاہیے، مودودیؒ روایتی نہیں تھے جیسا کہ جنابِ غامدی بیان کرتے ہیں کہ وہ ابتدا میں مجتہدانہ فکر رکھتے تھے لیکن جلد ہی اہل مدارس کی مخالف سے روایتی عالم دین بن گئے اور نہ وہ اس قدر جدت پسندی کے قائل تھے جیسا کہ اہل مدارس کی غالب اکثریت انکے بارے رائے موجود ہے کہ انہوں نے دین کی نئی تشریح کر کے مودودیت کا فرقہ بنانے کی کوشش کی- مودودیؒ ان دونوں آراء کے درمیان ٹھہرتے ہیں، جہاں انہوں نے محسوس کیا کہ ایک پہلو میں دنیا بہت بدل چکی ہے، لوگوں کو الٹے پیر نہیں چلایا جا سکتا تو انہوں نے اجتہادی قوت استعمال کر کے مسلمانوں کو نیا راستہ دیا، اور جہاں محسوس کیا کہ روایت آراء کے ساتھ تعلق قابل فخر ہوسکتا ہے انہوں نے کھل کر اسے اپنی تحریر کا حصہ بنایا، وہ خود کہتے ہیں کہ 
"بزرگان سلف کے اجتہادات نہ تو اٹل قانون قرار دئیے جا سکتے ہیں اور نا سب کے سب دریا برد کر دینے کے لائق ہیں۔ صحیح اور معتدل مسلک یہی ہے کہ ان میں ردوبدل کیا جا سکتا ہے مگر صرف بقدر ضرورت اور اس شرط کے ساتھ کہ جو رد و بدل بھی کیا جائے تو دلائل شرعیہ کی بناء پر کیا جائے۔ نیز نئی ضروریات کے لیے نیا اجتہاد کیا جا سکتا ہے مگر اس کے لیے شرط یہی ہے کہ اس اجتہاد کا ماخذ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ ہو اور یہ اجتہاد وہ لوگ کریں جو علم و بصیرت کے ساتھ اتباع و اطاعت بھی رکھتے ہوں۔ رہے وہ لوگ جو زمانہ جدید کے رجحانات سے مغلوب ہو کر دین میں تحریف کرنا چاہتے ہیں، تو ان کا حق اجتہاد کو تسلیم کرنے سے قطعی انکار ہی کیا جا سکتا ہے۔رسائل مسائل (دوم)۔ صفحہ 186"
رہی بات مودودیؒ اور جنابِ غامدی کے تعلق کی تو وہ ہے استدلال کے استعمال کا، لیکن یہاں بھی دو مختلف راستے کے راہی بن جاتے ہیں- استدلال اگر علم کلام میں بولے تو مودودیؒ بنتا ہے اور اگر استدلال، فیصلہ ساز بن جائے تو جنابِ غامدی کی شکل اختیار کر لیتا ہے

دوسرا حصہ
مسلمانوں کی زندگیوں میں جس طرح امام غزالیؒ نے ایک نیا جادو بھر دیا تھا اور جس طرح امام شاہ ولی اللہؒ نے ایک سحر پھونک دیا تھا، اسی طرح دنیا بھر کے مسلمانوں کے سامنے امام سید مودودیؒ نے ایک نئی دنیا پیدا کر دی تھی، اسی لیے انہیں اسلامی علمی تاریخ کی عبقری شخصیت کہا جاتا ہے، مجھے کبھی کبھی بہت دکھ ہوتا ہے کہ ان کی علمی تحریک کو وہ تسلسل نصیب نہیں ہو سکا جو ہمارے ہاں باقی علمی شخصیات کے ضمن میں رواں ہے- اس بابت اگر ہمارے ہاں کسی دینی علمی تحریک کی مثال پیش کی جائے تو دیوبند کی روایتی علمی تحریک ہے جو ایک تسلسل کے ساتھ موجود ہے لیکن بدقسمتی سے یہ اس مزاج اور طرزاستدلال سے موافق نہیں جو سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ کے ہاں پایا جاتا ہے، البتہ سلسلہ فراہی ان کے مزاج سے موافق ہے، حمید الدین فراہیؒ بظاہر مولانا شبلیؒ کے شاگرد تھے لیکن انہوں نے دین کو ایک نئی تعبیردی، اگرچہ یہ تعبیر بڑی تعداد میں مسلمانوں کو اپنی جانب مائل نہیں کرسکی لیکن بہرحال اس میں ایک تسلسل برقرار رہا ہے، مولانا امین احسن اصلاحیؒ نے اس کو پکڑا، یہیں سید مودودیؒ منظرنامے پر ابھرتے ہیں، چونکہ آپ غیر معمولی شخصیت تھے، مزاج کی مناسبت سے مولانا امین احسن اصلاحیؒ، سید مودودیؒ کے ساتھ آ ملے، سترہ سالہ رفاقت کے بعد سلسلہ فراہی ایک مرتبہ پھرعلیحدہ ہوکر اپنی پٹڑی پر چل پڑا، لیکن اس کے تسلسل میں پاکستان کے اندر دوسری بڑی شخصیت جاوید احمد صاحب غامدی کو بھی ابتداء میں جماعت اسلامی کی آغوش حاصل رہی لیکن ظاہر ہے مزاج کا اتفاق، طرز استدلال کو پس پشت نہیں ڈال سکتا، نتیجتاً طرزاستدلال سے پیدا ہونے والے فروع میں فرق آنے پر یہ بھی جماعت اسلامی سے ٹوٹ گئے، جناب غامدی کے بعد ان کے شاگردوں کی تعداد درجنوں میں ہے اس بحث سے قطع نظر کہ ان کے اثرات پڑھی لکھی کمیونٹی پر کس قدر محدود رہے ہیں لیکن یہ زندہ علمی تحریک ہے جس کی وجوہات موضوع بحث نہیں- اصولی طور پر فکرِ مودودیؒ کے تسلسل میں غیر معمولی شخصیت کوئی میسر آئی تو وہ خرم جاہ مرادؒ کی تھی، ان کے علاوہ ان کی فکر سے تحریک لینے والی عظیم شخصیات کی تعداد برصغیر یا دنیا بھر میں ہزاروں میں ہے، کیونکہ سید مودودیؒ کا متن اردو زبان میں موجود ہے اس لیے یہ امید رکھی جانی چاہیے تھی کہ ان کا تسلسل قائم رہتا لیکن ایسا نہیں ہوا، ان کے اٹھنے کے بعد ان کے پیروؤں کو جن مسائل نے گھیرا، وہ اس میں الجھ کر رہ گئے، اور کچھ انہیں پکڑ کر آگے بڑھنے کی کوشش کرنے بھی لگے تو وہ ان کے الفاظ میں نئے مفاہیم تلاش کرنے سرگرم رہے
ویسے تو یہ بات سید مودودیؒ سے منسوب کی جاتی ہے کہ ان کی فکر کو تیسری نسل بہتر طریقے سے سمجھ پائے گی، یہ بات مبنی برحقیقت لگتی ہے جب ہم عالمی منظرنامے پر ہونے والی تبدیلیوں اور ان کی وجہ سے ہر ملک اور بالخصوص اسلامی ممالک پر پڑنے والے اثرات کا جائزہ لیتے ہیں، ان کے لٹریچر کے پس منظر میں ان کی فکر کی ضرورت پہلے سے زیادہ پیدا ہو رہی ہے- لہذا ضروری ہو گیا ہے کہ ایک بار پھر ان علمی ورثہ میں غوطہ زن ہوا جائے اور ان کے مزاج کی چاشنی اور طرز استدلال کی روشنی سے نئی دنیا کے تمام مسائل کو پڑھا اوراسلامی حل تجویز کیا جائے

تیسراحصہ
ویسے تو یہ دانشوری کا زمانہ ہے، ایک اینٹ اٹھاؤ، نیچے سے درجنوں اسکالرز نکلیں گے، لیکن پُراثر دانش وری تو ٹویٹر کا اکاؤنٹ ہے، جو اپنے زورِ الفاظ سے فیورٹ بھی لیتا ہے، ری ٹویٹ بھی پاتا ہے اور یہ کیفیت اس پر تسلسل کے ساتھ طاری رہے تو فالورز بھی چوکھے بنا لیتا ہے- دانشوری بھی اپنے مزاج اور طرزاستدلال کی قوت سے اپنی راہ بناتی ہے، نہ کہ روتی اور بلکتی ہے کہ مجھے اختیار فیصلہ عطاء کیا جائے- اس میں بھی بہت سی ایسی دانشوریاں بھی بڑا مقام حاصل کر لیتی ہیں جو حقیقاً فریب کا خول پہنے ہوئے ہوتی ہیں ، یہ زیادہ عرصہ نہیں چل پاتیں اور ایک دن خودبخود اس خول میں شگاف پڑتے نظر آنے لگتے ہیں-
جماعت اسلامی کے حوالے سے قحطِ الرجال کا ذکر چل رہا ہے اور تخصیص کے ساتھ اس کی وجوہات پر مسئلہ اٹکا ہوا ہے، بہت سے فاضل احباب یہ رائے رکھتے ہیں کہ جماعت اسلامی میں بطور تنظیم غور و فکر کرنے والوں کی گنجائش موجود نہیں ہے، قرین گمان ہے یہ بات صد فیصد درست ہو گی کیونکہ جماعت کی تنظیم بارے میری معلومات عموماً سطحی قسم کی ہیں- باوجود یہ چیز کسی پُرخلوص علمی شخصیت کی راہ کا اٹکاؤ نہیں ہے الا یہ کہ جماعت اسلامی کا فورم اس سے کھینچ لیا جائے- اس طرح کی مثالیں بھی ہمارے سامنے موجود ہیں، پہلی مثال جو مولانا مودودیؒ کی حیات میں دیکھی گئی وہ جنابِ غامدی کی ہے اور اس عہد میں جاوید اکبر انصاری کی مثال دی جا سکتی ہے- لیکن ان کی وجوہات بڑی جاندار اور دلچسپ ہیں، اور قحط الرجال کی ایک بڑی وجہ بھی-
ہمارے پاس مولانا مودودیؒ کا پورا لٹریچر موجود ہے، جب ہم مولانا کے مزاج کی بات کرتے ہیں، تو اس سے مراد ہوتا ہے کہ وہ عقل کو اپیل کرے گا، فکر کو جھنجھوڑے گا، عمل پر مائل کرے گا اور جب ہم ان کے طرزِ استدلال کی بات کرتے ہیں تو وہ ہے نیا اسلوب جس کی بنیاد میں استدلال کوٹ کوٹ کر بھرا ہے، وہ مرہم بھی ہے اور نشتر بھی ہے، وہ باغی بھی ہے اور محبت کا ہالا بھی ہے- ہم میں اکثر بشمول اس آنگن میں موجود میں حلقہِ دانشور ان کے بارے درست رائے قائم نہیں کر پاتا اور درست رائے باندھ بھی لے تو قائم نہیں رکھ پاتا- ہم میں بہت سے انہیں ایک مجتہد کی نظر سے دیکھتے ہیں اور بہت سے روایت کو استدلال کی طاقت فراہم کرنے والی شخصیت قرار دیتے ہیں- یہی کچھ جاوید احمد صاحب غامدی یا جاوید اکبر صاحب انصاری کے معاملے میں ہوتا ہے، 
جنابِ غامدی تو اپنے منہ سے کہتے ہیں کہ شروع کے ادوار میں مولانا مودودیؒ کا فکری لہجہ وہ نہیں تھا جو بعد میں بن گیا، وہ مجتہد سے روایتی بن گئے اور اس کی وجوہات بیان کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ مولانا علمائے کرام کی طرف سے ہونے والی تنقید پر بدل گئے- غامدی صاحب کی یہ خواہش تھی کہ مولانا کے قلم سے تسلسل کے ساتھ اجتہادی افکار ابھرتے رہتے جیسا کہ ان کے ہاں پیدا ہوتے رہتے ہیں، دوسری طرف جاوید اکبر انصاری صاحب مزاج تو وہی رکھتے لیکن مکمل طور پر روایتی ہیں، مجتہدانہ سوچ ان کو چھو کر بھی نہیں گزری، یہی وجہ کہ وہ مولانا کے کیے ہوئے اجتہادات کو بھی حرف غلط کی مٹا دینے کی بات کرتے ہیں، خاص کر سیاست کے ضمن میں وہ جمہوریت اور سیاست میں کئے جانے والے سمجھوتوں کے خلاف بولتے رہتے ہیں اور اس پر ایک کتابچہ بھی لکھا ہے-
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ، جیسا کہ مزاج اور طرز استدلال میں واضع ہے کہ نہ انہیں قطعیت کے ساتھ مجتہد قرار دیا جا سکتا ہے اور نہ قطعیت کے ساتھ روایتی مفکر کہا جا سکتا ہے، ان کا مسلک اعتدال کا ہے، نہ تو وہ غامدی ہیں اور نہ انصاری ہیں وہ صرف سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ ہیں- اور شاید جماعت اسلامی کا اسٹیج اسی کو چجتا ہے جو اس اعتدال کو قائم رکھتے ہوئے، مولانا مودودیؒ کے مزاج اور طرزِاستدلال کے مطابق نئے سوالات کے جواب تلاش کرتا ہے- پھر وہ کہیں مولانا سے آگے اجتہاد کرتا نظر آئے گا تو کہیں مولانا سے پیچھے روایت کو تھامتا دکھائی دے گا، اس حسنِ اعتدال کے ساتھ جماعت اسلامی کا فورم اس کے لیے ٹویٹر کا اکاؤنٹ ہے- میں یقین کے ساتھ کہتا ہوں اسے رونا اور بلکنا نہیں پڑے گا چاہے اسے جماعت قبول کر لے یا نہ کرے- لیکن تاحال فکرِ مودودیؒ کو وہ تسلسل نصیب نہیں ہو سکا جو ہمارے ہاں باقی علمی شخصیات کے ضمن میں رواں ہے

مودودیؒ، غامدی اور اہل مدارس

on 2016-03-16


بعض احباب، مودودیؒ اور جنابِ غامدی کے خلاف اہل مدارس کا ردعمل دیکھ کر دونوں کو ایک ہی پلڑے میں رکھ دیتے ہیں، اہل مدارس کا ایک مخالفانہ مزاج ہے کہ جس سے اختلاف پیدا ہوا اس کیخلاف فتوے تراشے، اس کے نام کے ہجوں پر تحقیق کر کے مقدمات تیار کیے اور کچھ کثر رہ گئی تو مخالف کی تحریروں سے چھوٹے چھوٹے فقرے نکال کر انہیں خلافِ شریعت اور خلاف اسلام ثابت کرنے کی کوشش کی- یہ مزاج برصغیرمیں باپ دادا کی وراثت کی طرح جاری و ساری ہے، ہمارے نوجوان طبقہ علماء کو بڑے ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچنا چاہیے کہ اس مزاج نے انہیں کیا دیا ہے اورکیا لیا ہے-
علم چاہے دنیا کا ہو یا دین کا، کسی کی میراث نہیں ہے، اور اللہ کا پیغام تو ہرانسان کے لیے عام ہے، وہ خود سمجھے، مختلف علمی سرمایے سے معاونت حاصل کرے یا براہ راست اہل مدارس سے رہنمائی لے، یہ انسان پر منحصر ہے، لہٰذا مدارس سے باہر بھی مسلمانوں میں کچھ ایسے لوگ اٹھ سکتے ہیں جو دین کو انہماک سے پڑھیں، سمجھیں اور دوسروں کو سمجھائیں، کیونکہ مسلمانوں کے علمی سلسلے کا زخیرہ مدارس میں موجود ہے وہ زبان بذبان اور سینہ بہ سینہ اگلی نسلوں تک منتقل بھی ہو رہا ہے، اگر وہ محسوس کرتے ہیں کہ کوئی آزاد مسلمان فہم میں کمی پیشی کا شکار ہے تو انہیں دلائل و برہان اور تقویٰ و خشیت الہیٰ کے ساتھ سمجھانا چاہیے-
یہیں وہ آزاد مسلمان جو مدارس کے بجائے اپنی کوششوں سے دین کو سمجھنے کی کوشش میں مصروف ہیں، انہیں بھی یہ احساس رکھنا ہوگا کہ روایت سے انحراف کا رویہ تحقیقی اور علمی رویہ نہیں ہے، آپ روایت کو دریا بُرد کر کے نئے سرے سے دین کی تشریح کا بیڑا اٹھانے کی کوشش نہیں کر سکتے اور کریں بھی گے تو وہ سواد اعظم میں قبول نہیں ہو سکے گی- تاریخ اسلام میں ایسے کئی نیک اور صالح شخصیات گزری ہیں جنہوں نے یہ کوشش کر کے دیکھ لی، آج ان میں سے چند ایک کے نام ہی باقی ہیں- اسلام نے جو زبان اور الفاظ چنے وہ اپنے وقت میں مروج تھے، یہی وجہ ہے قرآن مجید عرب کے بدوں کو بھی ویسے ہی سمجھ میں آیا جیسے پڑھے لکھوں کو آیا- وقت بدلتے بدلتے لفظ اپنے اصل مطالب کھو بیٹھتے ہیں یا بدل جاتے ہیں، وقت کے مفہوم تک پہنچے کے لیے ہمیں روایت کا ہی سہارا درکار ہوتا ہے، اس کا قطعاً مطلب نہیں کہ روایتی آراء سے باہر سوچا ہی نہیں جا سکتا اور اجتہاد کے دروازے بند دینا چاہیے، لیکن یہ سب کچھ اس سہارے کے بغیر آپ کو کہیں سے کہیں اٹھا کر پھینک سکتا ہے-
اس سارے پس منظر کے ساتھ ہم سب کو مودودیؒ اور جنابِ غامدی میں فرق قائم رکھنا چاہیے، مودودیؒ روایتی نہیں تھے جیسا کہ جنابِ غامدی بیان کرتے ہیں کہ وہ ابتدا میں مجتہدانہ فکر رکھتے تھے لیکن جلد ہی اہل مدارس کی مخالف سے روایتی عالم دین بن گئے اور نہ وہ اس قدر جدت پسندی کے قائل تھے جیسا کہ اہل مدارس کی غالب اکثریت انکے بارے رائے موجود ہے کہ انہوں نے دین کی نئی تشریح کر کے مودودیت کا فرقہ بنانے کی کوشش کی- مودودیؒ ان دونوں آراء کے درمیان ٹھہرتے ہیں، جہاں انہوں نے محسوس کیا کہ ایک پہلو میں دنیا بہت بدل چکی ہے، لوگوں کو الٹے پیر نہیں چلایا جا سکتا تو انہوں نے اجتہادی قوت استعمال کر کے مسلمانوں کو نیا راستہ دیا، اور جہاں محسوس کیا کہ روایت آراء کے ساتھ تعلق قابل فخر ہوسکتا ہے انہوں نے کھل کر اسے اپنی تحریر کا حصہ بنایا، وہ خود کہتے ہیں کہ 
"بزرگان سلف کے اجتہادات نہ تو اٹل قانون قرار دئیے جا سکتے ہیں اور نا سب کے سب دریا برد کر دینے کے لائق ہیں۔ صحیح اور معتدل مسلک یہی ہے کہ ان میں ردوبدل کیا جا سکتا ہے مگر صرف بقدر ضرورت اور اس شرط کے ساتھ کہ جو رد و بدل بھی کیا جائے تو دلائل شرعیہ کی بناء پر کیا جائے۔ نیز نئی ضروریات کے لیے نیا اجتہاد کیا جا سکتا ہے مگر اس کے لیے شرط یہی ہے کہ اس اجتہاد کا ماخذ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ ہو اور یہ اجتہاد وہ لوگ کریں جو علم و بصیرت کے ساتھ اتباع و اطاعت بھی رکھتے ہوں۔ رہے وہ لوگ جو زمانہ جدید کے رجحانات سے مغلوب ہو کر دین میں تحریف کرنا چاہتے ہیں، تو ان کا حق اجتہاد کو تسلیم کرنے سے قطعی انکار ہی کیا جا سکتا ہے۔رسائل مسائل (دوم)۔ صفحہ 186"
رہی بات مودودیؒ اور جنابِ غامدی کے تعلق کی تو وہ ہے استدلال کے استعمال کا، لیکن یہاں بھی دو مختلف راستے کے راہی بن جاتے ہیں- استدلال اگر علم کلام میں بولے تو مودودیؒ بنتا ہے اور اگر استدلال، فیصلہ ساز بن جائے تو جنابِ غامدی کی شکل اختیار کر لیتا ہے-

پاکستان میں سیکولرزم کا ہمہ وقتی بحران

on 2016-02-28

درآمد شدہ نظریات جب کسی اجنبی معاشرے میں آتے ہیں تو پہلا مسئلہ جو انہیں درپیش آتا ہے وہ اپنی پروڈکٹ کا نام اور خصائص کو مقامی زبان میں پیش کرنے کا ہے، ظاہر ہے ایک ایسا شہر جس میں سب گنجے آباد ہوں، اس کے بازار میں کنگھے کے نام سے کوئی چیز نہیں بک سکتی، چہ جائیکہ کنگھے کا نام بدل کر بال اگانے والا آلہ رکھ دیا جائے اور زور زور سے ہاکری کی جائے کہ روزانہ تین وقت اسے گنجے سروں پر پھیرا جائے تو آہستہ آہستہ بال اگنا شروع ہو جائیں گے، ایسی پروڈکٹ کیسے نہیں بکے گی، جب تک لوگ اس کو آزما کر دیکھ نہیں لیں گے اور دوسروں کو بتائیں گے نہیں تب تک گنجوں کے شہر میں ایسی دکانوں پر ایک عارضی رش لگ جائے گا، بعینہ اسی طرح کا معاملہ مغرب کی پروڈکٹ سیکولرزم کے ساتھ درپیش آتا ہے جب وہ مغربی معاشرے سے مسلمان معاشرے میں آتی ہے تو اسے اپنی اصطلاح اور مفہوم کا ایسا بحران گھیر لیتا ہے جو وقتی اور ہنگامی نہیں ہوتا ہے۔

ایک مسلمان معاشرے میں سیکولرزم اپنے اصل اصطلاح اور مفہوم کے ذریعے تواسلامی مارکیٹ کے تقاضے پورے کرنے سے رہی کیونکہ جب بھی اسلامی مارکیٹ میں 'دنیا' کے نام سے 'لااسلام' اور 'لادین' چیز بکنے کے لیے آئے گی ،گاہک اسے خریدنے کے بجائے کراہت اور نفرت کا اظہار کرنے لگیں گے، عجب نہیں کہ چند اس دکان کو بھی ڈھا دینے کا مطالبہ کرنے لگیں جو اسلام کو کاٹ کر کچھ بیچنا چاہتی ہو ،اس اسلام کو جو غارِ حرا سے اٹھ کر دنیا سے مخاطب ہوا تھا ۔لہٰذا مسلمان معاشروں کے سیکولر دانشوروں نے سوچا کہ اس پورے سیاسی فلسفے کا لیبل بدل کر ایسا معقول سا نام رکھ دیا جائے جسے سن کر مسلمان گاہک کم ازکم ان کی بات سننے اور خریدنے کی جانب مائل تو ہو سکے لیکن بدقسمتی سے اسکے علمبردار سیکولرزم کے لیےسوائے اس کے لفظی مطلب 'دنیا'کے اردو میں کوئی اصطلاح پیش کرنے میں آج تک ناکام رہے ہیں جونہ صرف اسکا متبادل ہو بلکہ اس کی اصل تعریف کی سرخی بھی بن سکے، محض 'دنیا' بنانے کی اس کوشش کے باوجود یہ فقط ' دنیا' نہیں ہے بلکہ 'دنیا' بنانے کے ایسے نظریات ہیں جس میں اسلام کی 'آخرت' بنانے کی قطعاً کوئی گنجائش نہ ہوـ عرب دنیا میں بھی سیکولرزم کو اسی بحران کا سامنا رہتاہے جہاں اس کے لیے ہمت کر کے کہیں عِلمانیہ اور کہیں علمانیہ کی اصطلاحیں پیش کی گئیں ۔عِلمانیہ کے معنی سائنس اور عِلم سے متعلقہ نظریات تھے اس لیے اس معنی و مفہوم کا اطلاق کسی صورت سیکولرزم پر نہیں کیا جا سکتا تھا ، علمانیہ اس کا درست لفظی مطلب تھا جو اردو میں دنیا سے متعلق یا دنیاوی کا ہم معنی ہے-

معنی و مفہوم کے اس ہمہ وقتی بحران کی بنیادی وجہ یہ تھی یورپ کے اندر ایسے دانشوروں کو ایک ایسا مذہب ملا جو اس دنیا سے ماوراء ایک عقیدہ رکھتا تھا اور انسان کی دنیاوی زندگی کے ارتقاء کا ازلی دشمن تھا ۔یہ دشمنی سیکولرزم سے پہلے وہ اسلام سے بھی برت چکا تھا جب مسلمانوں نے اسپین میں عیسائیوں کوعربی اعداد کی تعلیم دی تو عیسائیت نے اسے مذہبی جرم تصور کیا، اور مسلمانوں کی علمی ترقی کو فتوحات کے بعد کے سانحات میں شمار کیا گیا ۔لہذا عیسائی مذہب کی ماروائے دنیا نظریات کے ردعمل میں دنیا کا نظریہ پیش کیا گیا اور تعریف یہ کی گئی جو مذہب ہمیں نہیں کرنے دیتا وہ ہم کریں گے، مطلب ہم اپنی اجتماعی اور عملی زندگی کی ساری کاوشیں دنیاوی زندگی کی تعمیر و ترقی میں لگائیں اور مذہب ان تمام شعبوں سے خارج کر دیں گے، یہی منظرنامہ سیکولرزم کےبنیادی فلسفے میں کارفرما تھا اور اسی سے نکلے ہوئے معنی، مفہوم اور تشریح ہمیں مغرب کی ڈکشنریوں اور ان سائیکلوپیڈیاز میں ملتے ہیں۔

آکسفورڈ ڈکشنری میں سیکولر لفظ کی تعریف کچھ یوں کی گئی ہے:

1- دنیوی یا مادی یعنی دینی یا روحانی نہ ہو جیسے لادینی تربیت، لادینی فن یا موسیقی، لادینی اقتدار و حکومت جو کلیسا کی حکومت سے متضاد یا مخالف ہے۔

2- یہ رائے کہ دین (مذہب) کو اخلاق و تربیت کی بنیاد نہیں ہونا چاہیے۔

لوبسٹر کی ڈکشنری آف ماڈرن ورلڈ میں سیکولرزم کی تشریح کرتے ہوئے لکھا گیا ہے:

1- دنیوی روح یا دنیوی رجحانات وغیرہ بالخصوص اصول و عمل کا ایسا نظام جس میں ایمان اور عبادت کی ہر صورت کو رد کر دیا گیا ہو۔

2- یہ عقیدہ کہ مذہب اور کلیسائی احکامات کا امور مملکت اور تربیت عامہ میں کوئی دخل نہیں ہے۔

لوبسٹرز نیو ورلڈ ڈکشنری آف دی امریکن لینگویج میں سیکولرزم کا مطلب یہ لکھا گیا ہے

سیکولرزم عقائد اور اعمال کا ایسا نظام ہے جو دینی (مذہبی) عقیدے کی ہر صورت نفی کرتا ہو۔

اب ذرا انسائیکلوپیڈیاز میں سیکولرزم کی تشریحات ملاحظہ فرمائیں۔

انسائیکلوپیڈیا آف برٹانیکا لکھتا ہے:

سیکولرزم ایک ایسی اجتماعی تحریک کا نام ہے جس کا اصل ہدف لوگوں کی توجہ امور آخرت کے اہتمام سے ہٹا کر صرف دنیا کو ان کی توجہ کا مرکز بناتا تھا، کیونکہ قرون وسطیٰ میں لوگ دنیا سے کنارہ کشی کا شدید رجحان رکھتے تھے اور دنیا سے بے رغبت ہو کر خدا اور آخرت کی فکر میں منہمک رہتے تھے، اس رجحان کے بالمقابل انسانی جذبہ اور رجحان کے بروئے کار لانے کے لیے سیکولرزم وجود میں آیا اور دورِ نشاۃ ثانیہ میں لوگوں نے انسانی اور ثقافتی سرگرمیوں اور دنیا کے مرغوبات کے حصول میں زیادہ دلچسی کا اظہار شروع کر دیا- سیکولرزم کی جانب یہ پیش قدمی تاریخ جدید کے تمام عرصے میں دین ( مسیحیت) سے متضاد تحریک کی حیثیت میں آگے بڑھتی اور ارتقاء حاصل کرتی رہی۔

انسائیکلولوپیڈیا آف امریکانا سیکولرزم کی تشریح ان الفاظ میں کرتاہے:

سیکولرزم ایک ایسا اخلاقی نظام ہے جس کی بنیاد پند و نصائح کے اصولوں پر رکھی گئی ہو اور جو الہامی مذہب پر انحصار نہ رکھتا ہو، سیکولرزم تمام اہم سوالات مثلاً خدا کے وجود اور روح کے غیر فانی ہونے وغیرہ پر بحث و تمحیص کا حق دیتا ہے-

یہ سیکولرزم کے وہ مفہوم اور تشریحات ہیں جو نہ صرف مغرب کی مرتب کی گئیں ڈکشنریز اور لکھی گئے ہر انسائیکلوپیڈیا میں ملتی ہیں بلکہ اس حوالے سے لکھی گئی ہر چھوٹی بڑی کتاب میں اسی بنیاد پر نظریات اٹھائے گئے ہیں جس میں دین (مذہب) کی تعلیمات اور کسی بھی قسم کا کردار نہ ہو، اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ سیکولرزم ، لادینیت کا معنی و مفہوم رکھتا ہے۔ اسی لیے مسلمان معاشرے میں سیکولرزم ایک ہمہ وقتی بحرانی کیفیت سے دوچار ہو جاتا ہے سیکولرزم اس بحران پر قابو پانے سے قاصر ہے، یہی وجہ ہے مسلمان معاشروں میں سیکولرزم پر یقین رکھنے والے پیروکار ہمیشہ تعداد میں کم ہی رہے ہیں- ایک ایسا انسان جو اسلام کے ہوتے ہوئے سیکولرزم کو قبول کرنے کی ٹھان لیتا ہے تو گویا یہ معنی و مفہوم کا بحران ، ایک مسلمان کا دینی بحران بن جاتا ہے۔ یہ کیفیت اتنہائی کمزور اور نامطمئن ہوتی ہے کہ ایک انسان بیک وقت مسلمان بھی ہو اور نا مسلمان بھی، وہ اس کیفیت میں غیرارادی طور پر زیادہ دیر نہیں ٹھہر سکتا، وہ زیادہ عرصے تک مسلمان نہیں رہ سکتا ہے یا پھر زیادہ عرصے تک سیکولر نہیں رہ سکتا-

گنجائشِ ترجمہ و تفسیر پر ایک چھوٹا سا مکالمہ

on 2016-01-29


ڈاکٹر خضر یاسین صاحب، صاحبِ فکرو دانش ہیں، حقیقی سچ کی تلاش میں ان کی جدوجہد اور کوشش کو تحسین کی نظر سے دیکھا جاتا ہے، ایک بارعامر ہاشم خاکوانی صاحب نے اپنی پوسٹ میں ان کا ذکرِ خیر کیا تو ان کے حلقہِ دوستانِ فیس بک میں شامل ہونے کا شوق پیدا ہوا، خوش قسمتی سے ڈاکٹر عاصم اللہ بخش صاحب نے انہیں اگلے دن اسی پوسٹ کے کمنٹ میں ٹیگ کیا تو یہ شوق پورا ہو گیا- ان سے وقتاً فوقتاً کمنٹ باری چلتی رہتی ہے، ان سے بات کر کے ہمیشہ چیزوں کو دیکھنے کے مختلف زاویے پیدا ہوتے ہیں، ان سے آج ایک چھوٹا سا مکالمہ ہوا جسے بحثِ عامہ کیلئے یہاں پیش کر رہا ہوں 


ڈاکٹر صاحب:
قرآن مجید کے ترجمہ, تفسیر اور خلاصہ کو قبول کرنا درحقیقت حضرت رسول اللہ علیہ السلام کی نبوت پر غیر کے تصرف کو قبول کرنا ھے.
خبر بگیر کہ آواز تیشہ و دل است



راقم:
ترجمہ، تفسیر کو قائم مقام نہیں قبول کیا جا سکتا، لیکن فہم میں اس موقف کو تسلیم کر لینا گویا سمجھ اور علم کے دائرے کو حد درجہ تک محدود کرنا ہے



ڈاکٹر صاحب:
آپ بالکل درست سمجھے ھیں, یہاں سمجھ اور علم وھی ھے جو کچھ کتاب اللہ میں ھے بس وھی سمجھا جائے تو علم ھے ورنہ بے کار ھفوات ھیں.



راقم:
لیکن ایک سمجھ یا فہم کا نام ہی تفسیر ہے، کیونکہ تمام عقل انسانی برابر نہیں، اس لیے تفسیر و ترجمہ کی موجودگی کی گنجائشیں خود بخود پیدا ہو جاتی ہین



ڈاکٹر صاحب:
جس معنی کا ابلاغ متن نے کیا ھے اسی معنی کو دوبارہ بیان کرنے کی ضرورت فقط اس وقت پیش آتی ھے جب متن کو ابلاغ معنی میں ناکافی فرض کر لیا جاتا ھے. از سرے نو اسی معنی کو بیان کرنا اس بات کی علامت ھے کہ متن ناکام ھے یا از سرے نو بیان کرنے والا غلط ھے.



راقم:
اگر آپ کی بات کو درست تسلیم کر لیا جائے کہ متن کو معنی دینے سے اس از سر نو بیان کی شکل پیدا ہو جاتی ہے تو فہم اور سمجھ کو آپ کس جگہ ٹھہرائیں گے؟ یا متن کے ابلاغ کی حیثیت کیا ہوگی؟



ڈاکٹر صاحب:
متن بالذات ابلاغ ھے, آپ میری اس تحریر کو سمجھ رھے ھیں اور میرے مدعا کو از سرے نو بیان کرنے کی ضرورت نہیں. فہم انسانی کے لیے تحریر اور تقریر وسائل ابلاغ ھیں. تحریر و تقریر کو از سرے جدید تصنیف و تقریر میں لے آنا الگ شے ھے.



راقم:
میں آپ کی بات بالکل سمجھ چکا ہوں، اس کے باوجود فہم انسانی کو ضبط تحریر میں لانے کی گنجائش پھر بھی محسوس کرتا ہوں اس قطعی شرط کے ساتھ کہ وہ متن کا قائم مقام نہیں ہوتا چاہے جتنا مرضی قریب ہو جائے-



ڈاکٹر صاحب:
جزاک اللہ الخیر, انسان کے ذھنی محصولات ایک حقیقت ھیں, میں اس کا انکار نہیں کر رھا. مشکل یہ ھے کہ انہیں کس اعتبار اور لحاظ سے کلام اللہ کا آسان تر ابلاغ قبول کیا جائے؟



راقم:
دیکھیں جی آپ کا مقدمہ یہ ہے کہ ایک ہے متن جو انسان کو ایک فہم عطا کرتا ہے، پھر ایک فہم یا ترجمہ، تحریر کی شکل میں ڈھال دیا جائے تو وہ دوبارہ ویسا ہی عامل بن جاتا ہے جیسا کہ متن تھا- لیکن میں فہم یا ترجمے کو متن کے بجائے ایک فہم کی تحریری شکل تک محدود رکھ رہا ہوں جو کسی دوسرے انسان کے فہم میں معاون بن سکتی ہے- اس کی گنجائش تو خود صفہ کے چبوترے سے پیدا ہو گئی تھی اور وہ بھی ایسی صورت کہ قرآن کی زبان اور انسان کی زبان میں بھی کوئی فرق نہیں تھا- آخر ایک دوسری زبان کے حامل انسان کے لیے یہ گنجائش کیسے نا معقول کہی جا سکتی ہے

زخمی طالبات کی تلاش میں

on 2015-11-05


ان دنوں کراچی یونیورسٹی میں ایک  بدنام زمامہ طلبہ تنظیم کے ہاتھوں کرکٹ کھیلنے کی پاداش میں  مبینہ طور پر زخمی ہوکر غائب ہوجانے والی طالبات کی تلاش  میں  یونیورسٹی کی انتظامیہ،  سندھ رینجرز اور میڈیاسمیت ہر ایک لگا ہوا ہے  لیکن ان  بچاریوں کو گویا آسمان کھا گیا ہے یا زمین نکل گئی۔  میں نے سوچا کہ قوم کی بیٹوں کا معاملہ ہے کیوں نہ میں بھی اس تلاش گمشدہ میں اپنا حصہ ڈالوں اور انہیں تلاش کرکے انکے حق کے لئے آواز اٹھانے والوں میں شامل ہوجاوں۔ بس اسی فکر میں  مجھے اپنے ایک" جدید ترین بھائی" ہم جماعت یاد آگئے جو اس قسم کے معاملات میں اکثر فیس اور ٹوئٹر پر فعال نظر آتے ہیں ۔


ہمارے ہاسٹل میں دائیں طرف کے تین کمرے چھوڑیں تو 'جدیدترین بھائی' کا کمرہ آتا ہے۔ 'جدیدترین' بھائی کی شخصیت بھی کمال کی ہے۔ دنیا کے ہر نئے فیشن کی جیسے اوپنگ وہی کرتے ہیں، میں نے انہیں سیاہ گوگل کے بغیر کبھی نہیں دیکھا، دن ہو یا رات، دھوپ ہو یا چھاوں، اکیلے جا رہے ہیں یا مجلس یاراں میں یونیورسٹی کے 'پھولوں' کی خوشبوؤں کا ذکر خیر کر رہے ہوں، یہ گوگل ان کی ناک سے نیچے نہیں اترتے- ویسے تو ہم سب کو معلوم ہے کہ وہ بی ایس کمپیوٹر سائنس کی روبینہ سے عشق کرتے ہیں لیکن یونیورسٹی کی ہر چمکتی چیز پر اپنی نظروں کی کمندیں ڈالنا ان کا پسندیدہ مشغلہ ہے- 'جدیدترین' بھائی خیالات میں اتنے آزاد ہیں کہ کبھی کبھی اپنی باتوں کے مقابلے میں ہی تحریک آزادی برپا کر دیتے ہیں، مذہبی لوگوں سے وہ ایک خاص قسم کی نفرت کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ نفرت ان کی اپنی پیدا کردہ نہیں بلکہ ہر انسان کے جینز کے اندر موجود ہوتی ہے بس ذرا کوئی ان کو 'ایکسپریس' کرنے کی کوشش تو کرے۔اسی کوشش میں وہ مولوی کو دیکھ کر راہ بدل لیتے ہیں، کلاس میں پنجوں کی اس لائن میں ہی نہیں بیٹھتے جس میں کوئی مولوی بیٹھا ہو، میس میں ان کے سامنے کوئی مولوی آ بیٹھے تو کھانا چھوڑ کر اٹھ کھڑے ہوتے ہیں، کہتے ہیں یہ لوگ نحوست کی علامت ہوتے ہیں، خیر 'جدیدترین' بھائی کی صفات جدیدہ سے میں آپ کو روشناس کرواتا رہوں گا۔ اس وقت بات ہو رہی تھی کراچی یونیورسٹی میں  
ایک بدنام زمانہ تنظیم کے  ہاتھوں شدید زخمی ہونے والی طالبات کی تلاش کی
۔

 بس انہی طالبات کی تلاش میں مدد کے لئے اپنے 'جدید ترین' بھائی کے پاس پہنچا  تھا  کہ جس طرح دنیا کا ہر فیشن سب سے پہلے اس کے جسم پر آتا ہے اسی طرح دوجہاں کی ہر لڑکی کی شکل اور خبر سب سے پہلے انہی کے پاس پہنچتی ہے- ان کے کمرے کا دروازہ بند نہیں تھا، ہم نے دروازہ ہلکا سا ناک کیا اور چند لمحے ٹھہر گئے، دوسری اور تیسری بار ناک کیا، دروازہ ذرا نہیں ہلا، دھت کھڑا رہا، تھوڑے توقف کے بعد ہم نے اسے سہارا دے کر آگے سرکا دیا تاکہ معلوم تو ہو کہ ہمارے 'جدیدترین' بھائی اندر موجود بھی ہیں یا نہیں- ہمیں خوشی ہوئی کہ ہمیں خبر مل جائے گی کیونکہ سامنے بیڈ پر وہ کسی گہرے خمار میں لیٹے تھے، بیڈ پر انہیں ویسے بھی نیند زیادہ گہری آتی ہے اسی فائدے کے پیش نظر انہوں نے ہاسٹل کی چارپائی لینے سے انکار کر دیا تھا اور یہ بیڈ گھر سے اٹھا لائے تھے- اس تبدیلی کی اصل وجہ ہمیں تب معلوم ہوا جب انہوں نے چارپائی کو قدامت کی نشانی قرار دیا- میں نے ان کے پاوں کو دو تین بار ہلایا لیکن وہ ہر بار ایک سے دوسری کروٹ لیتے اور واپس نیند میں چلے جاتے، سوچا دست بدست، آواز باآواز پوچھ لیا جائے
-
"'جدید ترین" بھائی سنتے ہو وہ کراچی یونیورسٹی میں جو واقعہ ہوا ہے"- ان کی "ہمممم" نکلی تو ہم نے بات جاری رکھی " یار سنا ہے آپ کے بھائیوں نے اس میں کوئی درجن بھر طالبات کے شدید زخمی ہونے کی خبر دی ہے"- طالبات کا نام سنتے ہی جیسے ان کے اندر بجلی آ گئی، سیدھی کروٹ لی اور گویا ہوئے- "یار یہ مولوی، یہ خدائی فوجیدار بنے پھرتے ہیں، یہ اسلام کے ٹھیکیدار انہیں کس نے حق دیا ہے کہ طالبات کو کرکٹ کھیلنے سے منع کریں، بیچاریوں کو کرکٹ کھیلنے کے جرم میں آئی سی یو میں بھیج دیا......."- اس سے پہلے کہ وہ کراچی یونیورسٹی پر ڈرون حملے کے لیے امریکہ کو آواز لگاتے، میں نے ٹوک دیا- " 'جدیدترین'بھائی مجھے یہ سب معلوم ہے کہ  بس میں تو یہ پوچھنے آیا تھا کہ ان شدید زخمی طالبات کے خون میں لتھڑے خوبصورت چہروں کے بارے آپ کو کوئی خبر ہو، کوئی ان باکس میں تصاویر پہنچی ہوں تاکہ ہم مل کر اس ظلم پر سوشل میڈیا پر مہم چلا سکیں"- میرا مدعاء سن کر انہوں نے گہرا سانس لیا کہ جیسے بھائیوں کی خبر کی گہرائی ماپنے کی کوشش کر رہے ہوں- غمزدہ لہجے میں گویا ہوئے "وہ جی آپ کو پتا تو ہے کہ طالبات شدید زخمی ہوئی ہیں، انہیں گہری چوٹیں لگیں ہیں، تمام کی تمام آکسیجن پر آئی سی یو میں زندگی و موت کی کشمکش میں ہیں، ایسی حالت میں نہ تو وہ معصوم کچھ بول سکتی ہیں اور نہ انہیں میڈیا پر لایا جا سکتا"- اس کے ساتھ ہی ان کی آنکھیں بھر آئیں- میں نے انہیں دلاسا دیا اور یہ کہتے ہوئے دوبارہ آنے کو کہا کہ ان جماعتیوں سے تو اللہ پوچھے گا آپ فکر نہ کریں
-
میس میں ہماری دوبارہ ملاقات ہو گئی، لگے ہاتھوں نے دوبارہ پوچھ لیا تو جیسے ایسے گویا ہوئے جیسے میرا ہی انتظار کر رہے تھے " شکر ہے وہ آئی سی یو سے گھر پہنچ چکی ہیں لیکن دیکھو ہم پرائے لوگوں کی دھی بھین کی عزت کرنے والے لوگ ہیں، اب کسی کی دھی بھین کو یوں میڈیا پر لے آنا بھائی معزز لوگوں کا کب شیوہ رہا ہے، یہ جمعیت والے ویسے تو اسلام، اسلام کا راگ الاپتے ہیں، حیا کا کلچر عام کرنے کی بات کرتے ہیں، لیکن ان کو شرم نہیں آتی، کہتے ہیں ان درجن طالبات کو میڈیا پر دکھاو، یہ منافقت کے لبادے میں اوڑھے دہشتگرد ہیں، ان ......"- اس سے پہلے کہ روس کے جیٹ طیاروں کو آواز لگاتے کہ دیکھو کراچی یونیورسٹی میں دہشتگردوں کی پناہ گاہیں ہیں، بمباری کر کے نیست و نابود کر دو، میں نے ٹوک لیا اور کندھے پر ہاتھ ہوئے کہا- "جدید ترین' بھائی آپ اپنی بات ہی بھول گئے یا آزاد ہو گئے مجھے یاد ہے جب زنا کے معاملہ پر سید منور حسن نے کہا تھا کہ حکمت اور حیاء کا تقاضا ہے کہ جب گواہ نہ ہوں تو انصاف کے لیے لٹی ہوئی عزت کو بازار میں لٹکانے سے ہزارہا درجہ بہتر ہے کہ خاموشی اختیار کر کے اللہ سے معافی مانگی جائے- آپ نے خود ہی تو کہا تھا کہ عزت تو جو خراب ہونا تھی وہ ہو گئی اب انصاف کے لیے اسے میڈیا اور عدالت پر آنا ہوگا، میرے بھائی 12 طالبات پر ظلم عظیم ہوا ہے، وہ کیوں عزت کے لیے گھر پر بیٹھی رہیں، انہیں تو میڈیا پر اپنے زخم کھول کھول کر دکھانے چاہیں تاکہ پورا پاکستان ان پر مرہم پٹی رکھ سکے، ان کی ڈھارس باندھ سکے، ان کیلئے انصاف مانگ سکے،.ویسے بھی آجکل فوجی عدالتوں کا زمانہ ان سب کی بولتی بند کردی گئی، اب ایسی حرکتیں کریں گے تو سیدھا پھانسی ہی چڑھیں گے..."- 'جدیدترین' بھائی سے میرا پیار کا رشتہ ہے اس لیے وہ میری بات پر غور کرتے ہیں، یہ سب سن کر انہوں نے موبائل نکال لیا- کہنے لگے میں ابھی اپنے بھائیوں سے بات کرتا ہوں- میں نے کھانے کا آخری لقمہ لیا اور باہر نکل آیا
-
اپنے کمرے کی لائٹ آن کرکے بیٹھا ہی تھا کہ پیچھے سے آن دھمکے، کہنے لگے "غضب ہو ان دہشتگردوں پر، ان پر ضرب عضب کی چوٹ کیوں نہیں پڑی...."- "جدید ترین' بھائی اب کیا ہوگیا؟"میں نے حیران ہو کر پوچھا- "دیکھو ایک تو ان بیچاریوں کو لہولہان کر دیا، اب وہ زندہ بچ ہی گئی ہیں تو اب انہیں میڈیا پر آنے کی صورت میں ڈرا، دھمکا رہے ہیں"- "تو کیا آپ کے بھائی اتنے کمزور ہیں کہ ان کے گھروں سے کلپ ہی بنا لائیں تو کچھ نا کچھ تو سوشل میڈیا مہم آگے بڑھائی جا سکتی ہے"- یہ کہہ کر میں نے ٹویٹر کے لاگ ان کا بٹن دبا دیا- جیسے ہی بٹن دبایا فیصل رضا عابدی کے ٹویٹر ہینڈل سے درجنوں طالبات کے احتجاج کی ری ٹویٹڈ تصویر سامنے آ گئی- جو بدنام زمانہ تنظیم کے ظلم کیخلاف احتجاج کر رہی تھیں اور لڑکوں کے ساتھ کرکٹ کھیلنے کا حق مانگ رہی تھیں- میں نے اپنے 'جدید ترین' بھائی کو متوجہ کیا اور پوچھا " یار اتنی ساری لڑکیوں کو کوئی ڈر نہیں، جمعیت کا کوئی خوف نہیں، قوم کی یہ نڈر بیٹیاں کہاں سے اتری ہیں- کہنے لگے یار یہ تصویر تو کمال بھائی کے اکاونٹ سے ٹویٹ ہوئی ہے جو نامعلوم پارٹی سے تعلق رکھتا ہے- یقیناً یہ الطاف بھائی کی شیرنیاں ہوں گی"- میں نے کہا جی جی وہ لندن والے الطاف بھائی تو میرے 'جدیدترین' بھائی ذرا کال گھماؤ اور الطاف بھائی کے شیروں سے کہو کہ جرات سے ان زخمی طالبات کی وڈیوز بنا کر سوشل میڈیا پر لائیں اور آپ اور میرا کام شروع ہو'-"،جدیدترین' بھائی نے موبائل نکالا، اور کال ملا کر باہر نکل گئے- میں اسکرول دبا کر اپنی ٹائم لائن دیکھنے لگ گیا، مجھے ہلکی ہلکی آوازیں آنے لگیں جیسے وہ 'جدید ترین' بھائی سے مشورہ کر رہے تھے کہ جیسے جعلی فتوے بنائے تھے اور جیسے جماعتیوں کے جعلی پمفلٹ بنائے، ویسے ہی جعلی زخمی طالبات کیوں نہ بنا لی جائیں



یہ سن کر میں نے ٹویٹ ڈال دی:
"بدنام زمانہ تنظیم کے ہاتھوں، کرکٹ کھیلنے والی زخمی طالبات جلد منظر عام پر آ رہی ہیں..."-

بھارت میں سیکولرازم ناکام کیوں؟

on 2015-11-02


ہم فضائی قلعے تعمیر کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے اور ان قلعوں کی بکھری راہ داریوں میں ایسے گم ہوتے ہیں کہ بھول جاتے ہیں کہ اخلاص احمد کو اس دھرتی ماتا میں قتل کر دیا گیا جو ایشیا کی سب سے طاقتور 'سیکولر ریاست' کا اعزاز رکھتی ہے جس کے آئین کی شق 25 تا 28 مذہبی آزادی کی ضمانت دیتی ہیں-تو کیا سیکولر ریاست اپنی ملک میں بسنے والے مذہبی افراد کے مذہبی حقوق کا تحفظ کرنے میں ناکام ہو گئی؟ بجائے ہم اس سوال کا جواب ڈھونڈھتے ہم نے آنکھیں بند کیں، لفظوں کی تان چڑھائی اور ملزم کو ہی منصف بنانے پر تل گئے- حالانکہ انصاف کا تقاضا تو یہی تھا کہ ہم اس 'سیکولر ریاست' کو مجرموں کے کٹہرے میں کھڑا کر دیتے کہ آخر اس کے 'مذہبی آزادی' کے بلند بانگ نعروں کے باوجود ہندوستان میں ایک مسلمان کو مذہبی فریضے کا حق کیوں حاصل نہیں!اگر اپنے ہی فضائی قلعے کی راہ داروں پر بھاگم بھاگ کوئی راستہ تلاش کرنے کے بجائے ہم کسی سطح پر یہ تسلیم کرنے کو تیار ہو جائیں کہ دنیا کی ایک 'سیکولر ریاست' مذہبی آزادیوں کا تحفظ کرنے میں ناکام ہو گئی ہے تو لامحالہ ہم اس کی معقول وجوہات ضرور مانگیں گے-
سیکولر ریاست کی ناکامی کا پہلا مقدمہ:

''خطہ ہند کی ' سیکولر ریاست' پر مخصوص مذہبی عقائد رکھنے والا طبقہ غالب ہے''، نتیجہ یہ نکلا کہ آئین تو سیکولر ہے، ہندو، عیسائی اور مسلمان کو ان کے ہی مذہبی حقوق، قانون کی شکل میں ڈھال کر کتاب آئین کا حصہ بنا دئیے گئے ہیں لیکن عملداری میں مذہبی مزاج ہے جس نے عملاً ہندوستان کی 'سیکولر ریاست' کو ناکام بنا دیا ہے-

بالکل ایسے ہی جیسے بسم اللہ سے شروع کرکے پاکستان کا آئین اسلامی بنا دیا گیا، چند قوانین بھی بن گئے، پارلیمنٹ کی پیشانی پر کلمہ طیبہ بھی کندہ کر دیا گیا لیکن عملداری میں اسلام سے بے بہرہ مزاج موجزن ہے اسی لیے پاکستان کی 'اسلامی ریاست' عملاً ناکام نظر آتی ہے-
آج ہندوستان ہو یا پاکستان ایسی ہی الجھن کا شکار ہیں، ایک اصول دنیا ماننے کو تیار ہے کہ اگر جمہوریت ہے تو حکمرانی اکثریت کی ہی ہوگی، قانون انہی کی عکاسی کریں گے، اقلیتوں کے حقوق وہی متعین کریں گے-
آخر الجھن ہے کیا؟ سماج، آئین و قانون اور حکومت ایک پیج پر موجود ہی نہیں کہ ریاست اور سماج کسی سمت چلنے کے قابل ہو سکے، حکمران آئین و قوانین سے دور بھاگتے ہیں اور سماج کو اپنے آئین و قوانین بارے خبر نہیں- نتیجہ آئین و قوانین کی علمداری میں گیپ آ جاتا ہے جس کا فائدہ اچھے برے لوگ اٹھاتے ہیں اور بعض اوقات سماج ان کی پشت پر کھڑا ہوتا ہے بارہا ایسا بھی ہوا کہ سرکاری عدل و انصاف کی عدم موجودگی میں سماج عدل و انصاف اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہے- یہی وجہ ہے کہ اخلاص احمد کا لاشہ جلتا ہے یا عیسائی کالونی کے گھر جلتے ہیں-
بات صرف یہیں تک نہیں سیکولر نظام ہمارے سماج سے کوئی مطابقت نہیں رکھتا، یہ نظام وہیں چل سکتا ہے جہاں مذہب کسی نسوار کی ڈبیا بن جائے کبھی دل چاہا تو منہ میں رکھ کر چس لی اور تھوک دیا لیکن حقیقت یہ ہے مذہب برصغیر کے عوام کی زندگی کا اہم ترین عنصر ہے، یہ عنصر سو تو سکتا ہے مر نہیں سکتا، اسی لیے جب اکثریت کے مذہبی احساسات کے مطابق ریاست ترتیب نہیں پاتی تو قانون کو توڑ کر اخلاص احمد کو جلا دیا جاتا ہے بالکل جس طرح قانون کے مطابق حکومت عملداری قائم نہیں رکھ پاتی تو اسے بالائے طاق رکھتے ہوئے عیسائیوں کے گھر جلا دیئے جاتے ہیں، ظاہر ہے نظام اپنا کردار ادا نہیں کر سکے گا تو یہ احساسات قانون اور اصول سے نکل جائیں گے اورانکا غلط استعمال کیا جائے گا-
" 'سیکولرازم' کی 'مذہبی آزادی' محض ایک قانونی اور سماجی نعرہ ہے"- یہ امر واقعہ ہے کہ سیکولر قانون اور آزادیوں کی حیثیت صرف قانونی ہے، سماجی نہیں- سماج میں اسے بطور نعرہ ہی استعمال کیا جاتا ہے- اسی لیے یورپ جہاں مذہب اجتماعی طور پر ختم اور انفرادی طور پر سکڑ چکا ہے وہاں مسجد کے میناروں پر اعتراض اٹھتا ہے اور اعتراض کرنے والی ملحد سول سوسائٹی ہوتی ہے، مسلمانوں کو مذہبی حق کے لیے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑتا ہے اور عدالت اس وقت تک فیصلہ نہیں کر پاتی جب تک حکومت وقت کے احساسات نہیں جان پاتی، ایک اسکول کی بچی کو حجاب پہننے کے لیے عدالتی حکم کا انتظار کرنا پڑتا ہے، بات صرف شناخت کی نہیں حجاب پہننے والیوں کے حجاب عدالتوں میں نوچے جاتے ہیں اور حجاب پہننے کے لیے "جزیہ" دینا پڑتا ہے- درجنوں واقعات ایسے ہیں کہ حجاب پر نوکریوں سے فارغ کر دیا جاتا ہے، داڑھیوں کی وجہ سے انٹرویوز میں نہیں بیٹھنے دیا جاتا- نتیجہ معاشی قتل نکلتا ہے- کیا اسی طرح کا طرز عمل اخلاص احمد کے ساتھ نہیں برتا گیا؟


سیکولر ریاست کی ناکامی کا دوسرا مقدمہ:
" 'سیکولرازم' کی 'مذہبی آزادی' محض ایک قانونی اور سماجی نعرہ ہے"- یہ امر واقعہ ہے کہ سیکولر قانون اور آزادیوں کی حیثیت صرف قانونی ہے، سماجی نہیں- سماج میں اسے بطور نعرہ ہی استعمال کیا جاتا ہے- اسی لیے یورپ جہاں مذہب اجتماعی طور پر ختم اور انفرادی طور پر سکڑ چکا ہے وہاں مسجد کے میناروں پر اعتراض اٹھتا ہے اور اعتراض کرنے والی ملحد سول سوسائٹی ہوتی ہے، مسلمانوں کو مذہبی حق کے لیے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑتا ہے اور عدالت اس وقت تک فیصلہ نہیں کر پاتی جب تک حکومت وقت کے احساسات نہیں جان پاتی، ایک اسکول کی بچی کو حجاب پہننے کے لیے عدالتی حکم کا انتظار کرنا پڑتا ہے، بات صرف شناخت کی نہیں حجاب پہننے والیوں کے حجاب عدالتوں میں نوچے جاتے ہیں اور حجاب پہننے کے لیے "جزیہ" دینا پڑتا ہے- درجنوں واقعات ایسے ہیں کہ حجاب پر نوکریوں سے فارغ کر دیا جاتا ہے، داڑھیوں کی وجہ سے انٹرویوز میں نہیں بیٹھنے دیا جاتا- نتیجہ معاشی قتل نکلتا ہے- کیا اسی طرح کا طرز عمل اخلاص احمد کے ساتھ نہیں برتا گیا؟

آخر زلزلہ کیوں آتا ہے؟

on 2015-10-30

اضطراب دونوں طرف ہے وہ بھی جو کہہ رہے ہیں ہائے پلیٹں سرکیں اور زمین یوں ہلی کہ جان ہتھیلی پر آنے لگی، وہ سوچ رہے ہیں 1ء8 کے زلزلے کو روک تو سکتے نہیں بچاؤ کی تدابیر کی جائیں- پرسکون وہ بھی نہیں جو کہہ رہے ہیں کہ ہمارے نامہ اعمال پر تنبیہ ہے کہ غلط راستوں پر چل نکلے ہو ذرا سنبھل جاؤـ
یکسوئی اور اطمینان کتنی بڑی نعمت ہے جو نا تو روپے پیسے سے خریدی جا سکتی ہے اور نہ کاسہ گدائی میں وصول ہو سکتی ہےـ دیکھتے ہو زمین ہلی تو بہت سوں کا بہت کچھ ہل گیا، زندہ بچ گئے تو تڑاخ تڑاخ باتیں آنے لگیں، حقیقت ہے کہ اضطراب میں رہنے والے سکون کی موت بھی نہیں پاتے، یہ چھوٹے موٹے جھٹکے ان کے لیے ناکافی ٹھہرتے ہیں، انہیں مرنے کے لیے بھی کسی بڑے زلزلے کی ضرورت ہوتی ہےـ
خالق سے تخلیق و قاعدے تک اور قادر سے قدرت و اختیار تک نشانیاں صرف عقل والوں کو ملتی ہیں جبکہ ان میں سے تنبیہ صرف وہی پاتے ہیں جن کے دل میں تھوڑا سا بھی خوفِ خدا موجود ہوـ 
بقول قرآن کریم " يُضِلُّ بِهِ كَثِيرًا وَيَهْدِي بِهِ كَثِيرًا ۚ " اللہ ایک ہی بات سے بہتوں کو گمراہی میں مبتلا کر دیتا ہے اور بہتوں کو راہ راست دکھا دیتا ہے
خطہ برصغیر ویسے ہی بہت عجیب سرزمین ہے یہاں سائنس کے سب سے بڑے وکیل وہی بنتے ہیں جن کی اپنی سائنس آٹھویں جماعت کی سائنس کی کتاب سے آگے نہیں بڑھ پاتی یہی وجہ ہے کہ یہاں سائنسدان نامی مخلوق مشکل سے ملتی ہے، اسی طرح یہاں اسلام کے عالم بھی وہی بنتے ہیں جن کے پاس دنیاوی تعلیم کے نہ تو مواقع ہوتے ہیں اور نہ وہ تحقیق و جستجو کا مادہ جو آنکھوں پر لگے پردوں سے آگے دیکھنے کی جرات پیدا کر سکے
کوئی بھی سائنس دان اپنی بات کو حتمی تصور نہیں کرتا، تحقیقات ہمیشہ گنجائش اور ضروریات سے نکلا کرتی ہیں ہمارے ہاں اسے اٹل حقیقت تصور کر لیا جاتا ہے، اس بات کا یہاں ادراک ہی نہیں کہ سائنس کے فطری قوانین سائنس کا ایک باب ہے پوری سائنس نہیں- صرف یہی نہیں بلکہ سائنس، تحقیق و اکتشاف سے  دنیا میں ہونے والے تمام واقعات کی حاصل ہونے والی تفصیل کا نام ہے، انسان کبھی کبھی ان تفصیلات کو مزید استعمال ضرور کرتا ہے جس سے سائنسی ایجادات جنم لیتی ہیں
دنیا میں ہونے والا کوئی بھی واقعہ بے وجہ نہیں ہوا کرتا، زمین سے نکلنے والی جڑی بوٹی کا پودا بھی اپنی پیدائش کی وجوہات رکھتا ہے اور انسان کا ایک ایک عمل اپنے اپنے اسباب سے پیدا ہوتا ہے، ابھی موسم گرما گزرا ہے آپ کیا کرتے تھے اگر درجہ حرارت 45 سے پچاس تک جا پہنچتا ہو اور گرمی سے آپ کے پسینے چھوٹ تہے ہوں، یہی نا کہ اٹھیں گے پنکھا آن کریں گے یا اے سی موجود ہوگا تو اسے آن کر لیں گےـ یہ ایک چھوٹا سا واقعہ ہے، مانیں تو اس کے تین اجزاء ہیں 
وجہِ واقعہ: درجہ حرارت زیادہ ہوا، آپ کو گرمی محسوس ہوئی، آپ کو پسینے آنا شروع ہوئے
اختیارِ واقعہ: آپ کے پاس پنکھا تھا تو اسے آن کر لیا اور اے سی ہوا تو اسے چلا دیا
تفصیلِ واقعہ: جیسے ہی آپ نے پنکھے کا بٹن آن کیا، بجلی کا سرکٹ جُڑ گیا جس سے الیکٹران کپیسیٹر کی طرف دوڑنے لگے، کپیسیٹر نے پنکھے میں لگی الیکٹرک موٹر کو گردش دی اور وہ چلنے لگی- آپ مزید تفصیل میں جانا چاہیں تو موٹر کے اندر میں گھس سکتے ہیں کہ وہاں میٹل بیس کے اردگرد کوائلز لپیٹی ہوتی ہیں جیسے ہی بجلی اس میں داخل ہوتی ہے ایک میگنیٹک فیلڈ پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے جو کلاک وائز ایک طاقت پیدا کر دیتا ہے جس سے موٹر گھومنے لگتی ہے یہی وہ جگہ ہے جہاں الیکٹریکل انرجی، مکینکل انرجی میں بدل جاتی ہے، موٹر چلی تو اس کے ساتھ جڑے پنکھے کے بلیڈ بھی گھومنے لگے جو ہوا کو نیچے کی طرف دھکیلنے لگےـ آپ چاہیں تو مزید تفصیل کے اندر جا سکتے ہیں کہ آخر میگنیٹک فیلڈ کیسے ہوا اور اس نے کلاک وائز انرجی کیسے پیدا کردی
اس طرح زلزلہ بھی ایک واقعہ ہی ہے اور وہ بھی اپنے اندر یہ تمام تر اجزاء اور تفصیل رکھتا ہے
وجہِ واقعہ: انسان ڈائریکٹ یا ان ڈائریکٹ اس کائنات پر اپنے اعمال سے اثر انداز ہوتا ہے، ڈائریکٹ یہ ہے کہ وہ اپنی علم یا بدعملی کے نتیجے میں فطرت سے چھیڑخانی کردے یا اس زمین میں ایسے اعمال سرانجام دینا شروع کر دے جو کائنات میں کسی بڑے بگاڑ کا موجب ہوں ایسی صورت میں اختیارات کا مالک حرکت میں آ جاتا ہے
اختیارِ واقعہ: اللہ تعالیٰ اس کائنات کا خالق بھی ہے اور مالک بھی اسی لیے وہ قادر بھی ہے- اس لیے وہ بٹن دبا دیتا ہے
تفصیل واقعہ: زلزلہ کی ممکنہ تفصیل یہی ہو گی جس کا ادراک سائنس کے ذریعے یا جستجو و تحقیق کے زریعے سے انسان کو حاصل ہوئی ہے- کہ زمین مختلف پلیٹس پر مشتمل ہوتی ہے، پلیٹس کے نقل و حرکت کے باعث زیر زمین تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں، ان طبقات کو ٹیکٹونک پلیٹس کہا جاتا ہے، میگما پوائنٹ یا تبدیلیوں کے مرکز کو ایپی سینٹر یعنی زلزلے کا مرکز کہا جاتا ہے۔ ٹیکٹونک پلیٹس کی نقل و حرکت سے جو زیر زمین لہریں پیدا ہوتی ہیں ان سے زمین کی بالائی سطح پر زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے جاتے ہیں۔ زیر زمین لہروں کی فریکونسی بہت زیادہ ہوتی ہے جبکہ ویو لینتھ کم ہوتی ہے- کبھی کبھار غیر معمولی حرکات سے ان کی ویو لینتھ زیادہ ہو جاتی ہے جس سے سطح زمین پر قدرتی آفات جنم لیتی ہیں اور تباہی ہوتی ہے، آپ چاہیں تو کبھی کبھی جو تباہ کن ویو لینتھ پیدا ہوتی اس کی تفصیل بھی معلوم کر سکتے ہیں لیکن یہ تمام تر سائنس ہونے والے واقعے کی تفصیل ہی ہو گئی
مزید وضاحت
وضاحت میں قرآن مجید کی سورۃ النساء کی آیت پیش کروں گا
مَّا أَصَابَكَ مِنْ حَسَنَةٍ فَمِنَ اللَّـهِ ۖ وَمَا أَصَابَكَ مِن سَيِّئَةٍ فَمِن نَّفْسِكَ ۚ
اے انسان! تجھے جو بھلائی بھی حاصل ہوتی ہے اللہ کی عنایت سے ہوتی ہے، اور جو مصیبت تجھ پر آتی ہے وہ تیرے اپنے کسب و عمل کی بدولت ہے
 بھلائی، اللہ کی عنایت: اللہ تعالیٰ کی عنایت کیا ہے؟ کیونکہ وہ اس کائنات کا خالق ہے اور اس کی تخلیق ہی اس کی عنایت ہے، اس کی تخلیق یہ ہے کہ اگر اس پر کوئی بیرونی عمل اثر انداز نہ ہو تو وہ خیر ہی خیر ہے اس میں بگاڑ پیدا نہیں ہوتا یہی بات نیوٹن کا پہلا قانون کہتا ہے جو یونیورسل قانون کہلاتا ہے- خدائی  تخلیقات میں اضافی خوبی یہ ہے کہ وہ ایک حد تک بیرونی اثرات سے نبٹنے اور بے اثر کرنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہیں
مصیبت، انسان کے عمل کا ردعمل: انسان کے اعمال دراصل وہ اثرات ہیں جو وہ پیدا کرتا ہے، اگر وہ فطرت کے موافق اور ہدایت الہیٰ کے تابع ہوں تو اس کی تخلیقات پر کوئی منفی اثر نہیں ڈالتے بلکہ ان کے عین مطابق ہوتے ہیں لیکن جب وہ ایسے ڈائریکٹ یا ان ڈائریکٹ اعمال سرزد کرنے لگتا ہے جو اس کائنات پر منفی اثرات ڈالتے ہیں تو لامحالہ فطرت کبھی تو قاعدہ و قانون کے تحت خود ردعمل پیدا کر دیتی ہے جیسے انڈسٹریلائزیشن سے اوزون پر جو منفی اثر پڑا ہے اس کا خمیازہ ہمیں موسمیاتی تبدیلیوں کی صورت میں بھگتنا پڑ رہا ہے دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ ان منفی اثرات کی تفصیل سائنسی استدلال سے ہمارے پاس موجود ہوتی ہے البتہ ان ڈائریکٹ منفی اثرات کی کھوج تاحال اس کی دسترس سے باہر ہے کیوں کہ وہ ڈائریکٹ سے زیادہ پیچیدہ اور مبہم ہوتے ہیں جیسے زمین پر ظلم ہونے لگے تو وہ زمین پر کیا اثرات پیدا کرتا ہے، نامعلوم ہونا کبھی بھی غیر موجود ہونے کا متبادل نہیں ہوتا، جیسے پانچویں صدی عیسوی کے فرد سے ٹیلی ویژن کے بارے بات کی جائے کہ ایک ایسا ڈبہ ہے جس میں انسان حرکت کرتے اور بولتے دکھائی دیتے ہیں تو وہ آپ کو پاگل تصور کرے گا اور کہے گا کہ ایسا کسی صورت ممکن نہیں- لیکن آج یہ ممکن ہو چکا ہے اور سائنسی استدلال نے ایک حد تک تفصیلات معلوم کر لی ہیں، لیکن یہ تفصیلات مکمل نہیں خود سائنس کہہ رہی ہے کہ ابھی تک صرف چار فیصد سے بھی کم وہ کائنات کے راز جان پائی ہے