بھارت میں سیکولرازم ناکام کیوں؟

on 2015-11-02


ہم فضائی قلعے تعمیر کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے اور ان قلعوں کی بکھری راہ داریوں میں ایسے گم ہوتے ہیں کہ بھول جاتے ہیں کہ اخلاص احمد کو اس دھرتی ماتا میں قتل کر دیا گیا جو ایشیا کی سب سے طاقتور 'سیکولر ریاست' کا اعزاز رکھتی ہے جس کے آئین کی شق 25 تا 28 مذہبی آزادی کی ضمانت دیتی ہیں-تو کیا سیکولر ریاست اپنی ملک میں بسنے والے مذہبی افراد کے مذہبی حقوق کا تحفظ کرنے میں ناکام ہو گئی؟ بجائے ہم اس سوال کا جواب ڈھونڈھتے ہم نے آنکھیں بند کیں، لفظوں کی تان چڑھائی اور ملزم کو ہی منصف بنانے پر تل گئے- حالانکہ انصاف کا تقاضا تو یہی تھا کہ ہم اس 'سیکولر ریاست' کو مجرموں کے کٹہرے میں کھڑا کر دیتے کہ آخر اس کے 'مذہبی آزادی' کے بلند بانگ نعروں کے باوجود ہندوستان میں ایک مسلمان کو مذہبی فریضے کا حق کیوں حاصل نہیں!اگر اپنے ہی فضائی قلعے کی راہ داروں پر بھاگم بھاگ کوئی راستہ تلاش کرنے کے بجائے ہم کسی سطح پر یہ تسلیم کرنے کو تیار ہو جائیں کہ دنیا کی ایک 'سیکولر ریاست' مذہبی آزادیوں کا تحفظ کرنے میں ناکام ہو گئی ہے تو لامحالہ ہم اس کی معقول وجوہات ضرور مانگیں گے-
سیکولر ریاست کی ناکامی کا پہلا مقدمہ:

''خطہ ہند کی ' سیکولر ریاست' پر مخصوص مذہبی عقائد رکھنے والا طبقہ غالب ہے''، نتیجہ یہ نکلا کہ آئین تو سیکولر ہے، ہندو، عیسائی اور مسلمان کو ان کے ہی مذہبی حقوق، قانون کی شکل میں ڈھال کر کتاب آئین کا حصہ بنا دئیے گئے ہیں لیکن عملداری میں مذہبی مزاج ہے جس نے عملاً ہندوستان کی 'سیکولر ریاست' کو ناکام بنا دیا ہے-

بالکل ایسے ہی جیسے بسم اللہ سے شروع کرکے پاکستان کا آئین اسلامی بنا دیا گیا، چند قوانین بھی بن گئے، پارلیمنٹ کی پیشانی پر کلمہ طیبہ بھی کندہ کر دیا گیا لیکن عملداری میں اسلام سے بے بہرہ مزاج موجزن ہے اسی لیے پاکستان کی 'اسلامی ریاست' عملاً ناکام نظر آتی ہے-
آج ہندوستان ہو یا پاکستان ایسی ہی الجھن کا شکار ہیں، ایک اصول دنیا ماننے کو تیار ہے کہ اگر جمہوریت ہے تو حکمرانی اکثریت کی ہی ہوگی، قانون انہی کی عکاسی کریں گے، اقلیتوں کے حقوق وہی متعین کریں گے-
آخر الجھن ہے کیا؟ سماج، آئین و قانون اور حکومت ایک پیج پر موجود ہی نہیں کہ ریاست اور سماج کسی سمت چلنے کے قابل ہو سکے، حکمران آئین و قوانین سے دور بھاگتے ہیں اور سماج کو اپنے آئین و قوانین بارے خبر نہیں- نتیجہ آئین و قوانین کی علمداری میں گیپ آ جاتا ہے جس کا فائدہ اچھے برے لوگ اٹھاتے ہیں اور بعض اوقات سماج ان کی پشت پر کھڑا ہوتا ہے بارہا ایسا بھی ہوا کہ سرکاری عدل و انصاف کی عدم موجودگی میں سماج عدل و انصاف اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہے- یہی وجہ ہے کہ اخلاص احمد کا لاشہ جلتا ہے یا عیسائی کالونی کے گھر جلتے ہیں-
بات صرف یہیں تک نہیں سیکولر نظام ہمارے سماج سے کوئی مطابقت نہیں رکھتا، یہ نظام وہیں چل سکتا ہے جہاں مذہب کسی نسوار کی ڈبیا بن جائے کبھی دل چاہا تو منہ میں رکھ کر چس لی اور تھوک دیا لیکن حقیقت یہ ہے مذہب برصغیر کے عوام کی زندگی کا اہم ترین عنصر ہے، یہ عنصر سو تو سکتا ہے مر نہیں سکتا، اسی لیے جب اکثریت کے مذہبی احساسات کے مطابق ریاست ترتیب نہیں پاتی تو قانون کو توڑ کر اخلاص احمد کو جلا دیا جاتا ہے بالکل جس طرح قانون کے مطابق حکومت عملداری قائم نہیں رکھ پاتی تو اسے بالائے طاق رکھتے ہوئے عیسائیوں کے گھر جلا دیئے جاتے ہیں، ظاہر ہے نظام اپنا کردار ادا نہیں کر سکے گا تو یہ احساسات قانون اور اصول سے نکل جائیں گے اورانکا غلط استعمال کیا جائے گا-
" 'سیکولرازم' کی 'مذہبی آزادی' محض ایک قانونی اور سماجی نعرہ ہے"- یہ امر واقعہ ہے کہ سیکولر قانون اور آزادیوں کی حیثیت صرف قانونی ہے، سماجی نہیں- سماج میں اسے بطور نعرہ ہی استعمال کیا جاتا ہے- اسی لیے یورپ جہاں مذہب اجتماعی طور پر ختم اور انفرادی طور پر سکڑ چکا ہے وہاں مسجد کے میناروں پر اعتراض اٹھتا ہے اور اعتراض کرنے والی ملحد سول سوسائٹی ہوتی ہے، مسلمانوں کو مذہبی حق کے لیے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑتا ہے اور عدالت اس وقت تک فیصلہ نہیں کر پاتی جب تک حکومت وقت کے احساسات نہیں جان پاتی، ایک اسکول کی بچی کو حجاب پہننے کے لیے عدالتی حکم کا انتظار کرنا پڑتا ہے، بات صرف شناخت کی نہیں حجاب پہننے والیوں کے حجاب عدالتوں میں نوچے جاتے ہیں اور حجاب پہننے کے لیے "جزیہ" دینا پڑتا ہے- درجنوں واقعات ایسے ہیں کہ حجاب پر نوکریوں سے فارغ کر دیا جاتا ہے، داڑھیوں کی وجہ سے انٹرویوز میں نہیں بیٹھنے دیا جاتا- نتیجہ معاشی قتل نکلتا ہے- کیا اسی طرح کا طرز عمل اخلاص احمد کے ساتھ نہیں برتا گیا؟


سیکولر ریاست کی ناکامی کا دوسرا مقدمہ:
" 'سیکولرازم' کی 'مذہبی آزادی' محض ایک قانونی اور سماجی نعرہ ہے"- یہ امر واقعہ ہے کہ سیکولر قانون اور آزادیوں کی حیثیت صرف قانونی ہے، سماجی نہیں- سماج میں اسے بطور نعرہ ہی استعمال کیا جاتا ہے- اسی لیے یورپ جہاں مذہب اجتماعی طور پر ختم اور انفرادی طور پر سکڑ چکا ہے وہاں مسجد کے میناروں پر اعتراض اٹھتا ہے اور اعتراض کرنے والی ملحد سول سوسائٹی ہوتی ہے، مسلمانوں کو مذہبی حق کے لیے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑتا ہے اور عدالت اس وقت تک فیصلہ نہیں کر پاتی جب تک حکومت وقت کے احساسات نہیں جان پاتی، ایک اسکول کی بچی کو حجاب پہننے کے لیے عدالتی حکم کا انتظار کرنا پڑتا ہے، بات صرف شناخت کی نہیں حجاب پہننے والیوں کے حجاب عدالتوں میں نوچے جاتے ہیں اور حجاب پہننے کے لیے "جزیہ" دینا پڑتا ہے- درجنوں واقعات ایسے ہیں کہ حجاب پر نوکریوں سے فارغ کر دیا جاتا ہے، داڑھیوں کی وجہ سے انٹرویوز میں نہیں بیٹھنے دیا جاتا- نتیجہ معاشی قتل نکلتا ہے- کیا اسی طرح کا طرز عمل اخلاص احمد کے ساتھ نہیں برتا گیا؟

0 تبصرہ:

ایک تبصرہ شائع کریں