آخر زلزلہ کیوں آتا ہے؟

on 2015-10-30

اضطراب دونوں طرف ہے وہ بھی جو کہہ رہے ہیں ہائے پلیٹں سرکیں اور زمین یوں ہلی کہ جان ہتھیلی پر آنے لگی، وہ سوچ رہے ہیں 1ء8 کے زلزلے کو روک تو سکتے نہیں بچاؤ کی تدابیر کی جائیں- پرسکون وہ بھی نہیں جو کہہ رہے ہیں کہ ہمارے نامہ اعمال پر تنبیہ ہے کہ غلط راستوں پر چل نکلے ہو ذرا سنبھل جاؤـ
یکسوئی اور اطمینان کتنی بڑی نعمت ہے جو نا تو روپے پیسے سے خریدی جا سکتی ہے اور نہ کاسہ گدائی میں وصول ہو سکتی ہےـ دیکھتے ہو زمین ہلی تو بہت سوں کا بہت کچھ ہل گیا، زندہ بچ گئے تو تڑاخ تڑاخ باتیں آنے لگیں، حقیقت ہے کہ اضطراب میں رہنے والے سکون کی موت بھی نہیں پاتے، یہ چھوٹے موٹے جھٹکے ان کے لیے ناکافی ٹھہرتے ہیں، انہیں مرنے کے لیے بھی کسی بڑے زلزلے کی ضرورت ہوتی ہےـ
خالق سے تخلیق و قاعدے تک اور قادر سے قدرت و اختیار تک نشانیاں صرف عقل والوں کو ملتی ہیں جبکہ ان میں سے تنبیہ صرف وہی پاتے ہیں جن کے دل میں تھوڑا سا بھی خوفِ خدا موجود ہوـ 
بقول قرآن کریم " يُضِلُّ بِهِ كَثِيرًا وَيَهْدِي بِهِ كَثِيرًا ۚ " اللہ ایک ہی بات سے بہتوں کو گمراہی میں مبتلا کر دیتا ہے اور بہتوں کو راہ راست دکھا دیتا ہے
خطہ برصغیر ویسے ہی بہت عجیب سرزمین ہے یہاں سائنس کے سب سے بڑے وکیل وہی بنتے ہیں جن کی اپنی سائنس آٹھویں جماعت کی سائنس کی کتاب سے آگے نہیں بڑھ پاتی یہی وجہ ہے کہ یہاں سائنسدان نامی مخلوق مشکل سے ملتی ہے، اسی طرح یہاں اسلام کے عالم بھی وہی بنتے ہیں جن کے پاس دنیاوی تعلیم کے نہ تو مواقع ہوتے ہیں اور نہ وہ تحقیق و جستجو کا مادہ جو آنکھوں پر لگے پردوں سے آگے دیکھنے کی جرات پیدا کر سکے
کوئی بھی سائنس دان اپنی بات کو حتمی تصور نہیں کرتا، تحقیقات ہمیشہ گنجائش اور ضروریات سے نکلا کرتی ہیں ہمارے ہاں اسے اٹل حقیقت تصور کر لیا جاتا ہے، اس بات کا یہاں ادراک ہی نہیں کہ سائنس کے فطری قوانین سائنس کا ایک باب ہے پوری سائنس نہیں- صرف یہی نہیں بلکہ سائنس، تحقیق و اکتشاف سے  دنیا میں ہونے والے تمام واقعات کی حاصل ہونے والی تفصیل کا نام ہے، انسان کبھی کبھی ان تفصیلات کو مزید استعمال ضرور کرتا ہے جس سے سائنسی ایجادات جنم لیتی ہیں
دنیا میں ہونے والا کوئی بھی واقعہ بے وجہ نہیں ہوا کرتا، زمین سے نکلنے والی جڑی بوٹی کا پودا بھی اپنی پیدائش کی وجوہات رکھتا ہے اور انسان کا ایک ایک عمل اپنے اپنے اسباب سے پیدا ہوتا ہے، ابھی موسم گرما گزرا ہے آپ کیا کرتے تھے اگر درجہ حرارت 45 سے پچاس تک جا پہنچتا ہو اور گرمی سے آپ کے پسینے چھوٹ تہے ہوں، یہی نا کہ اٹھیں گے پنکھا آن کریں گے یا اے سی موجود ہوگا تو اسے آن کر لیں گےـ یہ ایک چھوٹا سا واقعہ ہے، مانیں تو اس کے تین اجزاء ہیں 
وجہِ واقعہ: درجہ حرارت زیادہ ہوا، آپ کو گرمی محسوس ہوئی، آپ کو پسینے آنا شروع ہوئے
اختیارِ واقعہ: آپ کے پاس پنکھا تھا تو اسے آن کر لیا اور اے سی ہوا تو اسے چلا دیا
تفصیلِ واقعہ: جیسے ہی آپ نے پنکھے کا بٹن آن کیا، بجلی کا سرکٹ جُڑ گیا جس سے الیکٹران کپیسیٹر کی طرف دوڑنے لگے، کپیسیٹر نے پنکھے میں لگی الیکٹرک موٹر کو گردش دی اور وہ چلنے لگی- آپ مزید تفصیل میں جانا چاہیں تو موٹر کے اندر میں گھس سکتے ہیں کہ وہاں میٹل بیس کے اردگرد کوائلز لپیٹی ہوتی ہیں جیسے ہی بجلی اس میں داخل ہوتی ہے ایک میگنیٹک فیلڈ پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے جو کلاک وائز ایک طاقت پیدا کر دیتا ہے جس سے موٹر گھومنے لگتی ہے یہی وہ جگہ ہے جہاں الیکٹریکل انرجی، مکینکل انرجی میں بدل جاتی ہے، موٹر چلی تو اس کے ساتھ جڑے پنکھے کے بلیڈ بھی گھومنے لگے جو ہوا کو نیچے کی طرف دھکیلنے لگےـ آپ چاہیں تو مزید تفصیل کے اندر جا سکتے ہیں کہ آخر میگنیٹک فیلڈ کیسے ہوا اور اس نے کلاک وائز انرجی کیسے پیدا کردی
اس طرح زلزلہ بھی ایک واقعہ ہی ہے اور وہ بھی اپنے اندر یہ تمام تر اجزاء اور تفصیل رکھتا ہے
وجہِ واقعہ: انسان ڈائریکٹ یا ان ڈائریکٹ اس کائنات پر اپنے اعمال سے اثر انداز ہوتا ہے، ڈائریکٹ یہ ہے کہ وہ اپنی علم یا بدعملی کے نتیجے میں فطرت سے چھیڑخانی کردے یا اس زمین میں ایسے اعمال سرانجام دینا شروع کر دے جو کائنات میں کسی بڑے بگاڑ کا موجب ہوں ایسی صورت میں اختیارات کا مالک حرکت میں آ جاتا ہے
اختیارِ واقعہ: اللہ تعالیٰ اس کائنات کا خالق بھی ہے اور مالک بھی اسی لیے وہ قادر بھی ہے- اس لیے وہ بٹن دبا دیتا ہے
تفصیل واقعہ: زلزلہ کی ممکنہ تفصیل یہی ہو گی جس کا ادراک سائنس کے ذریعے یا جستجو و تحقیق کے زریعے سے انسان کو حاصل ہوئی ہے- کہ زمین مختلف پلیٹس پر مشتمل ہوتی ہے، پلیٹس کے نقل و حرکت کے باعث زیر زمین تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں، ان طبقات کو ٹیکٹونک پلیٹس کہا جاتا ہے، میگما پوائنٹ یا تبدیلیوں کے مرکز کو ایپی سینٹر یعنی زلزلے کا مرکز کہا جاتا ہے۔ ٹیکٹونک پلیٹس کی نقل و حرکت سے جو زیر زمین لہریں پیدا ہوتی ہیں ان سے زمین کی بالائی سطح پر زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے جاتے ہیں۔ زیر زمین لہروں کی فریکونسی بہت زیادہ ہوتی ہے جبکہ ویو لینتھ کم ہوتی ہے- کبھی کبھار غیر معمولی حرکات سے ان کی ویو لینتھ زیادہ ہو جاتی ہے جس سے سطح زمین پر قدرتی آفات جنم لیتی ہیں اور تباہی ہوتی ہے، آپ چاہیں تو کبھی کبھی جو تباہ کن ویو لینتھ پیدا ہوتی اس کی تفصیل بھی معلوم کر سکتے ہیں لیکن یہ تمام تر سائنس ہونے والے واقعے کی تفصیل ہی ہو گئی
مزید وضاحت
وضاحت میں قرآن مجید کی سورۃ النساء کی آیت پیش کروں گا
مَّا أَصَابَكَ مِنْ حَسَنَةٍ فَمِنَ اللَّـهِ ۖ وَمَا أَصَابَكَ مِن سَيِّئَةٍ فَمِن نَّفْسِكَ ۚ
اے انسان! تجھے جو بھلائی بھی حاصل ہوتی ہے اللہ کی عنایت سے ہوتی ہے، اور جو مصیبت تجھ پر آتی ہے وہ تیرے اپنے کسب و عمل کی بدولت ہے
 بھلائی، اللہ کی عنایت: اللہ تعالیٰ کی عنایت کیا ہے؟ کیونکہ وہ اس کائنات کا خالق ہے اور اس کی تخلیق ہی اس کی عنایت ہے، اس کی تخلیق یہ ہے کہ اگر اس پر کوئی بیرونی عمل اثر انداز نہ ہو تو وہ خیر ہی خیر ہے اس میں بگاڑ پیدا نہیں ہوتا یہی بات نیوٹن کا پہلا قانون کہتا ہے جو یونیورسل قانون کہلاتا ہے- خدائی  تخلیقات میں اضافی خوبی یہ ہے کہ وہ ایک حد تک بیرونی اثرات سے نبٹنے اور بے اثر کرنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہیں
مصیبت، انسان کے عمل کا ردعمل: انسان کے اعمال دراصل وہ اثرات ہیں جو وہ پیدا کرتا ہے، اگر وہ فطرت کے موافق اور ہدایت الہیٰ کے تابع ہوں تو اس کی تخلیقات پر کوئی منفی اثر نہیں ڈالتے بلکہ ان کے عین مطابق ہوتے ہیں لیکن جب وہ ایسے ڈائریکٹ یا ان ڈائریکٹ اعمال سرزد کرنے لگتا ہے جو اس کائنات پر منفی اثرات ڈالتے ہیں تو لامحالہ فطرت کبھی تو قاعدہ و قانون کے تحت خود ردعمل پیدا کر دیتی ہے جیسے انڈسٹریلائزیشن سے اوزون پر جو منفی اثر پڑا ہے اس کا خمیازہ ہمیں موسمیاتی تبدیلیوں کی صورت میں بھگتنا پڑ رہا ہے دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ ان منفی اثرات کی تفصیل سائنسی استدلال سے ہمارے پاس موجود ہوتی ہے البتہ ان ڈائریکٹ منفی اثرات کی کھوج تاحال اس کی دسترس سے باہر ہے کیوں کہ وہ ڈائریکٹ سے زیادہ پیچیدہ اور مبہم ہوتے ہیں جیسے زمین پر ظلم ہونے لگے تو وہ زمین پر کیا اثرات پیدا کرتا ہے، نامعلوم ہونا کبھی بھی غیر موجود ہونے کا متبادل نہیں ہوتا، جیسے پانچویں صدی عیسوی کے فرد سے ٹیلی ویژن کے بارے بات کی جائے کہ ایک ایسا ڈبہ ہے جس میں انسان حرکت کرتے اور بولتے دکھائی دیتے ہیں تو وہ آپ کو پاگل تصور کرے گا اور کہے گا کہ ایسا کسی صورت ممکن نہیں- لیکن آج یہ ممکن ہو چکا ہے اور سائنسی استدلال نے ایک حد تک تفصیلات معلوم کر لی ہیں، لیکن یہ تفصیلات مکمل نہیں خود سائنس کہہ رہی ہے کہ ابھی تک صرف چار فیصد سے بھی کم وہ کائنات کے راز جان پائی ہے



0 تبصرہ:

ایک تبصرہ شائع کریں