دن میں اک زلزلہ آیا

on 2015-10-27

دن میں زلزلہ آیا

میں ڈیسک پر ہی موجود تھا
پہلے دماغ گھومنے لگا پھر پوری زمین ہلنے لگی
گاڑے سے چُنی اینٹوں اور مٹی کی چھت کے نیچے گویا مجھے قیامت کی ایک ہلکی سی جھلک دکھائی گئی
سوچا موت سے بھاگ نکلوں 
صرف دس قدموں کے فاصلے پر ایک خالی میدان مجھے پناہ دینے کو تیار تھا
اگر میری موت کا فیصلہ ہو چکا تو کہاں تک بھاگ سکتا تھا؟ دوسرے قدم پر منہ کے بل گرتا اور اپنی جان پیش کر دیتا---- آہ اتنی سی تو وقعت ہے میری
جنہیں خوشیوں میں خدا بھول جاتا ہے، انہیں مشکل میں خدا یاد آ ہی جاتا ہے، جسم تو زمین کے ساتھ ہی کانپ اٹھا تھا، گریہ و زاری کی کہ رب العالمین یہ نظام ہستی تیری ہی تخلیق ہے، اس کی رگوں میں دوڑتے قانون اور اصول تیرے ہی بنائے ہوئے ہیں، یہ سب تیرے اختیار میں ہے مولا رحم فرماء، ہم گنہگار اور ذلت خوار واقع ہوئے ہیں ہم مشکلات سے دوچار مت کرــــــ
میری مسکین سے صورت پر، ٹوٹے پھوٹے لفظوں پر، واپس لوٹنے اور اسے یاد کرنے پر ایک بار پھر اسے ترس آ گیا
وہ لچکتی دیوار، وہ جھولتی چھت جو چند لمحے پہلے اپنے نیچے میرا مدفن بنانے کے لیے انگڑایاں لے رہی تھیں، تھم گئیں 
جیسے جیسے زمین کی حرکت رکی، میرے دل کی دھڑکنوں کو ثبات آنے لگا، گہرا سانس لیا جیسے اپنے زندہ ہونے کو خود محسوس کرنا چاہتا تھا، بیس قدم اٹھائے اور جا کر پانی پیا 
واپس ڈیسک پر آن بیٹھا وہی کی بورڈ کی ٹھک ٹھک اور وہی اینٹر کی ٹھاہ، فقط موضوع ہی بدلا تھا
کبھی لکھنے لگا کہ زلزلہ تو اس لیے آیا ہے کہ سپریم کورٹ نے سود کی حمایت میں بیان دئیے تھے
کبھی لکھتا کہ کل غم حسین رضی اللہ عنہ سے آسمان پھٹ پڑا تھا، آج گریہ زہرہ سے زمین کانپ اٹھی ہے
کبھی کہنے لگتا کہ اس زمین پر زنا اور بدکاری عام ہو چکی ہے اسی لیے زمین ہلا ماری گئی کہ ہوش کے ناخون لو
کبھی کہتا کہ اللہ تعالیٰ نے میٹرو بس منصوبے کو عیاں کرنا تھا اس لیے زلزلے سے دکھا دیا کہ پاکستانیو شرم کرو اور آئندہ نواز شریف کو ووٹ نہ دینا
غرض میں نے ہر بار منہ بدلا اور ہر بار نئی بات سنی ، مجھے باتیں اس لیے آ رہی تھیں کہ میں زندہ بچ گیا تھا، اگر مجھے بھاگتے ہوئے پٹخ کر گرا مارا جاتا یا وہ جھولتی دیوار میرے اوپر آن گرتی تو میں یوں منصف بن کر رنگ برنگی باتیں نہ کر رہا ہوتا بلکہ میرے سامنے میری زندگی کے رجسٹر اکھٹے کرکے مجھے کسی بڑے منصف کے سامنے پیش کرنے کی تیاریاں شروع ہو چکی ہوتیں، لیکن میں بھول چکا ہوں وہ چند لمحے جو مجھ پر ابھی ابھی بیتے تھے ہاں بھول چکا ہوں، شاید یہ چھوٹے موٹے زلزلے بس اتنا ہی ہلا سکتے تھے جتنی دیر مجھے ہلا گئےـ



0 تبصرہ:

ایک تبصرہ شائع کریں