شاہ دولہ کے سائنسی چوہے اور ڈی این اے کی شہادت

on 2013-06-09

نیشنل انسٹیوٹ فار بائیو ٹیکنالوجی اینڈ جینیٹک انجینئرنگ فیصل آباد میں ہمارا تیسرا ماہ شروع ہو چکا تھا، اپنی یونیورسٹی کے ہم چار طلباء و طالبات تھے جو ایک خصوصی اکیڈمک ٹریننگ کے سلسلے میں یہاں مختلف لیبارٹریز میں مختلف قسم کے ٹیسٹ اور تجربات کر رہے تھے، اسی سلسلے کی کڑی میں اب ہم ہیلتھ ڈویژن میں آئے تھے ، ہیلتھ ڈویژن پنجاب بھر میں ایک عرصے سے نبجی کی مقبولیت کا باعث بنا رہا کیونکہ جینیٹک سائنس کے ابتدائی دنوں میں یہاں کا ہیپا ٹائٹس پی سی آر بہت زیادہ معروف تھا۔ یوں ہمارا پہلا پالا ہی یہاں اسی ٹیسٹ سے پڑا۔ ہم چار طلباء و طالبات کو کہا گیا کہ آپ میں کوئی دو افراد اپنے خون کے نمونے دیں تاکہ اس پر پی سی آر تجربہ کیا جائے۔ دو طالبات نے اپنے خون کی قربانی دی اور یوں سارا دن مختلف مراحل کے ساتھ پی سی آر کا عمل چلتا رہا۔ آخر کار نتیجہ خیز مرحلے میں جب ہماری نظر جیل ڈاک سسٹم کی اسکرین پر پڑی تو نتائج حیران کن تھے دو میں سے ایک طالبہ کا رزلٹ پوزیٹو اور ایک کا نیگٹو تھا، فورا سینئر پروفیسر صاحب سے رابطہ کیا تو انہوں نے مشورہ دیا کہ پی سی آر دوبارہ رن کیا جائے۔ اگلے دن دوبارہ عمل دوہرایا گیا لیکن نتائج کے ماتھے پر شکن تک نہ آئی اور وہ پوری ڈھڈائی کے ساتھ ایک پوزیٹو اور ایک نیگٹو کے ساتھ برقرار رہا۔ لڑکیوں کی نیچر کا تو آپ کو معلوم ہی ہو گا باقی بھی ہم سب پریشان تھے کہ یونہی لیبارٹریز میں سیکھتے سیکھتے مفت میں ایک مریض بنوا بیٹھے ہیں۔ پروفیسر صاحب سے دوبارہ مشورہ کیا تو انہوں نے پی سی آر کٹس کا ایک باکس اٹھا دیا کہ اس پر چیک کر کے دیکھیں اگر اس پر یہی نتائج آئیں تو سمجھیں حاصل یہی ہے۔ کٹ پی سی آر کم وقت لیتا ہے اور جلد نتائج ملتے ہیں اس بار نتائج کچھ زیادہ ہی ہوش اڑا دینے والے تھے ہوا یہ کہ جن محترمہ کا پہلے پوزیٹو تھا ان کا نیگٹو اور نیگٹو والی کا پوزیٹو نتیجہ نکلا۔ کافی غور و فکر اور مشوروں کے بعد فیصلہ ہوا کہ خون کے نمونے دوبارہ لیے جائیں اور دوبارہ ٹیسٹ کیا جائے تیسرے دن کے اختتام پر ہم اس سسنسی خیز تجربے کا بھی اختتام کر چکے تھے اور سب شکر ادا کر رہے تھے کہ اس بار نتیجہ دونوں کا نیگٹو نکلا ہے۔ ان طالبات نے اپنے اطمینان اور تسلی قلب کے لیے بیس کے قریب کٹس پر بار بار ٹیسٹ کیا لیکن نتائج برقرار رہے۔

آج اس سسپنس سے پھرپور واقعے کو ہوئے تیسرا سال گزر رہا ہے اور میں یاسر پیر زادہ کا ایک کالم پڑھ رہا ہوں۔ آج یاسر پیر زادہ  صاحب"عالمی جینیاتی سائنسدان" لگ رہے ہیں صاف محسوس ہو رہا ہے کہ انہوں نے یہ حیثیت ہائی اسکول کی سائنس کی کتاب پڑھ کر حاصل کی ہے ۔ اپنی اسی "سائنس دانی" کی بنیاد پر وہ اسلامی نظریاتی کونسل کے اسلامی اور نظریاتی علماء کے پیچھے لٹھ لے کر دوڑ پڑے ہیں جنہوں نے ڈی این اے ٹیسٹ کو زنا کے کیسسز میں بنیادی شہادت ماننے سے انکار کر دیا ہے ۔ اس قبیل کے ایک اور "سائنسدان" محمد حنیف صاحب کا ایک "سائنٹفک آرٹیکل" نما بلاگ بھی میرے سامنے موجود ہے جو بی بی سی نامی معروف نیوز ایجنسی نے اپنے لیے اعزاز سمجھتے ہوئے شائع کیا ہے۔ میں اپنی کم علمی اور نا تجربہ کار معلومات کے باوجود پوری ذمہ داری اور وثوق سے کہتا ہوں کہ موصوف بنیادی طور پر زنا بالرضا کے کیسسز کے وکالت کرتے ہوئے سائنس کے ٹھیکیدار بن رہے ہیں لیکن افسوس اوپر سے انصاف کا راگ بھی الاپے جاتے ہیں اور ان علماء پر غیر منصفی کا الزام بھی دھر رہے ہیں

قرآن و سنت اور اسلامی قانون سے ناواقف ہونا تو خیر اس "روشن خیال تعلیم یافتہ لبرل طبقہ" کے لیے شرمناک نہیں ہے مگر ان کی "سائنس دانی" پانچویں کی سائنس سے آگے نہ بڑھ سکے یہ ضرور ان کے لیے ڈوب مرنے کا مقام ہے ڈی این اے ٹیسٹ کس طرح کا عمل ہے اس کا اندازہ تو آپ کو واقعہ بالا سے ہو چکا ہو گا اس کا معیاری ہونے پر کوئی دو رائے نہیں رکھی جا سکتیں کیونکہ ہر انسان جینیاتی طور پر منفرد ہے اوراس کو ڈی این اے ٹیسٹ ہی پڑھ سکتا ہے لیکن یہ ٹیسٹ اسی صورت میں معیاری کہلاتا ہے جب تمام مراحل یوری ذمہ داری اور ایمانداری سے کنڈکٹ کیےجائیں زنا کے کیسسز میں اسلامی قانون سخت سزا دینے کا قائل ہے لہٰذا ڈی این اے ٹیسٹ ایسے میں ایک کمزور شہادت ہے اس پرکلی طور پر اسلامی قانون متفق ہے، غیر ترقی یافتہ سے ترقی پذیر ممالک بہت حد تک اور کسی حد تک خود سائنس بھی متفق ہے آئیے اس کا جائزہ لیں

ڈی این اے ٹیسٹ کا پہلا مرحلہ سیال مادے کے نمونے حاصل کرنا ہوتے ہیں آپ کے ڈی این اے ٹیسٹ کی کامیابی کا انحصار اسی پر ہوتا ہے کہ آپ نے جو نمونہ حاصل کیا اس میں واقعی وہ جنسی جرثومے اپنی اصل حالت میں موجود ہیں جس پر آپ ٹیسٹ کرنے والے ہیں یہ مختلف کیفیات پر منحصر ہے جس میں طریقہ واردات،ذانی کی جسمانی و جنسی صحت، نمونہ حاصل کرنے کا وقت اور نمونہ حاصل کرنے کا طریقہ کار و تجربہ کاری۔ طریقہ واردات کو میں علیحدہ بحث کے لیے رکھ چھوڑتا ہوں اور باقی چیزوں کا سرسری جائزہ لیے چلتے ہیں یہ ممکن ہے کہ ذانی کی جنسی و جسمانی صحت ایسی ہو کہ وہ سیال مادہ تو پیدا کرے مگر اس میں بہت کم جنسی جرثومے ہوں جس پر نمونہ حاصل کرنا مشکل ہو جائے اور بعض صورتوں میں ایسے بھی ممکن ہے کہ کوئی جرثومہ ہی نہ ہو خود یورپی ممالک میں ایسے بہت سے کیسسز سامنے آئے جس میں ظاہری جسمانی جائزہ سے مزنیہ (جس عورت کے ساتھ زنا کیا گیا ہو) پر تشدد اور جنسی طور پر ہراساں کرنے کے شوائد موجود تھے لیکن ڈی این اے ٹیسٹ نیگٹو آ رہا تھا۔ وہیں یہ بات بھی بہت زیادہ اہم ہےکہ مزنیہ زنا کے بعد کتنے وقت میں نمونہ کے لیے پہنچی ہے کیونکہ محدود وقت کے بعد ممکن نہیں کہ نمونہ حاصل کر کےٹیسٹ کیا جائے ایسی ہی  صورت حال حالیہ گینگ ریپ کیس انڈیا میں بھی دیکھی گئی جب بوجوہ ڈی این اے ریپ کٹ کی عدم دستیابی کے نمونہ حاصل کر کے محفوط کرنا تین دن تک ممکن نا ہو سکا پاکستان جیسے ملک جہاں مریض ایمبولینس کا انتظار کرتے کرتے جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں یا ایمبولینس ان کی میت لیے ہسپتال پہنچتی ہے ایسی صورت حال میں زنا کے بروقت نمونے کا حصول مشکل تر ہے

 ڈی این اے ٹیسٹ کا دوسرا مرحلہ حاصل کیے جانے والے نمونے کو لیبارٹری کے عمل سے گزارنا ہے یہاں مختلف اشیاء اثر انداز ہو سکتی ہیں جس میں لیبارٹری عوامل بھی ہیں اور غیر لیبارٹری عوامل بھی۔ لیبارٹری عوامل میں لیبارٹری کی ڈویلپمنٹ  اور ٹیکنیشن کی تجربہ کاری کے علاوہ مخصوص کیس اسٹڈی پر منحصر ہے کہ ٹیسٹ پوزیٹو آتا ہے یا نیگیٹو۔ یورپی ممالک کی لیبارٹریز تو بہت حد تک جدید اور ڈویلپڈ ہیں مگر پاکستان میں یہ معقولیت سے کم سطح پر ہوں گی اس سترہ اٹھارہ کروڑ کی آبادی رکھنے والے ملک میں صرف ایک فارینزک لیب ہے اور شور الاپا جا رہا ہے کہ علماء نے ڈی این اے ٹیسٹ کو شرعی شہادت تسلیم نہیں کیا۔ غیر لیبارٹری عوامل کا ٹیسٹ پر اثر انداز ہونا بھی خارج از امکان نہیں ایسی صورت میں ایک جھوٹی ڈی این اے ٹیسٹ رپورٹ کی جرح ہی کیسے ممکن ہے عدالت زیادہ سے زیادہ دوبارہ ٹیسٹ کنڈکٹ کرنے کا حکم جاری کر سکتی ہے جبکہ جھوٹے گواہان کی جرح با آسانی عدالتیں کرتی چلی آ رہی ہیں ایسے میں ڈی این اے ٹیسٹ کو کیسے بنیادی شہادت تسلیم کیا جا سکتا ہے۔

یہاں یہ بات بھی بتانا بہت ضروری ہے کہ سائنس نہایت بے ثبات علم ہے اس میں ٹھہراؤ نہیں ہے اس کا اقرار خود بدل سائنس بھی کرتی ہے آج جس کو پوجا جا رہا ہے کل ہو سکتا ہے کہ کوئی سائنسدان اٹھے اور سب کچھ بدل کر رکھ دے بشرطیکہ وہ محمد حینف یا یاسر پیرزادہ جیسا "سائنسدان " نہ ہو جو مغرب کی اندھی تقلید کے خوگر ہیں۔ یہاں میڈیکل کے شعبہ میں ایسے کئی ڈایاگونسٹک ٹولز تھے جو اپنے وقت میں نہایت معتبر مانے جاتے تھے پھر ہوا یوں کہ ان کی جگہ نئے اور جدید ٹولز نے لے لی اور وہ پرانے ٹولز معتبر سے غیر معتبر ہو گئے۔ ایسے میں اسلامی قانون ایک سخت سزا کے لیے اس سائنسی ٹول کو بنیادی شہادت کیوں مانے جو بے ثبات ہے اور اگلے ہی دن بدل جانے کی گنجائش رکھتا ہے ۔

اس مباحث کے آخری اور سب سے اہم نقطہ کی جانب بڑھتے ہیں جسے میں دانستہ عارضی طور پر چھوڑ آیا تھا یہی وہ مرکزی نقطہ ہے جس کی بناء اسلامی قانون میں ڈی این اے ٹیسٹ کو کسی بھی ملک میں بنیادی شہادت کے طور پر قبول نہیں کیا جا سکتا جی ہاں اسی کی بنیاد پر یہ روشن خیال لبرلز زنا کی وکالت کے درجے پر فائز ہیں اور اسی کی بنیاد پر میں ان کم فہم اسلام پسندوں کے اس سادہ خیال اور خوش فہمی کی نفی کروں گا جو وہ فرما رہے ہیں کہ "اگر کبھی حد کے مقدمات میں ڈی این اے ٹیسٹ کو شرعی شہادت تسلیم کرلیا گیا تو ہمارے روشن خیال طبقے کی آدھی عوام سنگسار ہوجائے گی اور باقی آدھی کوڑے کھا کر اسپتال میں پڑی ہوگی " حقیقت یہ ہے کہ اس کا سب سے زیادہ فائدہ ہی یہ روشن خیال لبرل طبقہ اٹھائے گا   آئیے پہلے یہ سمجھیں کہ اسلام میں زنا کس چیز کو کہا جاتا ہے؟ نکاح کے بغیر مباشرت کو زنا کہا جاتا ہے چاہے وہ باہمی رضامندی سے کیا جائے یا متعلقہ افراد میں سے کوئی جبر کے ساتھ کرے۔مغرب کے روشن خیال لبرلز میں باہمی رضا مندی سے کیے جانے زنا کو جرم ہی نہیں سمجھا جاتا بلکہ افراد کی ذاتی زندگی اور آزادی کے طور پر قبول کیا جاتا ہے۔لہٰذا ان کے ہاں جرم وہی ہے جس کا کیس خود مزنیہ لے کر عدالت میں پہنچ جائے۔ اسلام جرم کو بغیر کسی لاگ لپٹ کے جرم کہتا ہے  اسی لیے زنا چاہے بالرضا ہو یا بالجبر زنا ہی رہے گا چونکہ ان دونوں کے طریقہ واردات میں فرق ہے ۔ میں یہ بات پڑھنے والوں پر چھوڑتا ہوں کہ کیا خیال کرتے کہ اس دور میں زیادہ کیسسز کس قسم کے ہوتے ہیں یہ وباء بالرضا پھیل رہی ہے یا بالجبر۔

طریقہ ہائے واردات کی نظر سے دیکھا جائے تو صاف دکھتا ہے کہ باہم رضا مندی سے کیے جانے والے اس گناہ میں کئی احتیاطی تدابیر اختیار کی جاتی ہیں  جس میں جنسی جرثوموں کو مزنیہ کے جسم میں داخل ہونے سے روکنے کی ہرممکن کوشش کی جاتی ہے  کنڈومز کا استعمال اس کی ایک مثال ہے۔ یہ احتیاط اس لیے ضروری کہ ہمارا معاشرہ نا تو ایسے زنا اور ناحرامی بچوں کو سپورٹ نہیں کرتا ، لبرلز کے ہاں چونکہ اس سب چیزوں کو قبول کیا جاتا ہے لہٰذا وہاں احتیاط ضروری نہیں سمجھی جاتی۔ ڈی این اے ٹیسٹ کو بنیادی شہادت ماننے کے بعد یہ احتیاط پہلے سے زیادہ ضروری سمجھی جانے لگے گی ایسے میں کسی انسانی شہادت کی بناء کیس عدالت میں پہنچتا بھی ہے تو ڈی این اے کے لیے شواہد موجود ہی نہیں ہوں گا اور اگر ہوں بھی تو متعلقہ افراد مٹا دینے میں سستی نہیں برتیں گے۔ پھر آپ بیسوں مرتبہ ڈی این ٹیسٹ کر لیں رزلٹ نیگیٹو ہی ملتے رہیں گےیہی یاسر پیرزادہ اور محمد حنیف کی خواہش ہے جو زنا کومعاشرے میں پھیلانے کا موجب ہے۔

ایسے میں اسلامی نظریاتی کونسل کو یہ فیصلہ قابل تحسین ہے جس میں ڈی این اے ٹیسٹ کو بنیادی شہادت ماننے سے انکار کر کے انسانی شہادت کو ضروری قرار دیا گیا ہے۔  یہاں یہ بات سمجھنے کے لائق ہے کہ اسلامی قانون و تعزیرات میں ہمیشہ اس بناء پر سزائیں سنائی جاتی ہیں کہ جرم کا سدباب ہو، جرم کو پھیلنے سے روکا جائے اور جرم کا پرچار نہ کیا جائے ، وہ مجرم کو اس کے جرم کی سزا صرف اس لیے نہیں دیتا کہ اس نے جرم کیا ہے بلکہ وہ معاشرے کے باقی افراد کو پیغام بھی دیتا ہے کہ وہ اس سے عبرت حاصل کریں۔ زنا کے معاملے میں بھی وہ اسی اصول کو مدنظر رکھتا ہے اسی لیے وہ ایسے تمام کیسسز کا پنڈورا نہیں کھولتا جب تک وہ جرم معاشرے کی نظر میں نہ آ جائے اور چار فرد اسے دیکھ نہ لیں، لیکن روشن  خیال لبرلز کے ہاں متعلقہ افراد چاہے وہ زانی ہو یا مزنیہ، اور جرم تو بالجبر ہے 
جب تک معاشرے میں ننگے نہ ہوں جائیں، بچہ بچہ زنا کے لفظ سے واقف نہ ہو جائے مجرموں کو سزا دینے کا راگ الاپاجاتا ہے
نوٹ: یاسر پیرزادہ صاحب سے کچھ باقی فیصلوں پر بھی اپنی روشن خیال 'تاریکی نظر' فرمائی ہے۔ کچھ دنوں میں ان کا جواب بھی آپ ساجد قلم پر دیکھ سکیں گے۔    

30 تبصرہ:

Unknown کہا...

اس ضمن میں ایک اور نکتہ شاید مفید ہو کہ خود میڈیکل سائنس اورپریکٹس میں بھی محض کسی ایک رپورٹ کو حتمی شہادت یا حرف آخر تسلیم نہیں کیا جاتا. مرض کی علامات،ہسٹری، رپورٹس، سب کو دیکھ کر ہی راے قائم کی جاتی ہے اور علاج تجویز کرتے وقت بھی سب ہی عوامل کو سامنے رکھا جاتا ہے. اسی لئے اس مسلے کے علاوہ بھی دوسرے قانونی مسایل میں میڈیکل رپورٹس اور شہادتوں سے مدد تو لی جاتی ہے لیکن محض ان کی بنیاد پر فیصلے نہیں کیے جاتے. فارنسک میڈ پڑھاتے وقت یہی نکتہ سمجھایا جاتا ہے. میڈ رپورٹس میں ہمشہ ہی غلطی کے امکان ہوتے ہیں.پاکستان کا معاملہ تو خیر ماشا الله ہے.

itHighway کہا...
یہ تبصرہ مصنف کی طرف سے ہٹا دیا گیا ہے۔
Armour of Light کہا...

"Sharai" requirement aside, for it has been explained a bit in the article; the problem lies with the treatment of crime and criminal in Pakistan. Any influential person or authority can obtain the results of their own liking simply by putting enough money in the pockets of not only investigation team/officer but the judge/magistrate as well. If by chance this doesn't work, intimidation and threats can result in the shape of required reports. You can pin rape on an innocent guy and set free the guilty cause it only depends on a piece of paper, and out here only paper speaks. Sir jee DNA test main aa gya hai! Sir jee DNA test to bilkul khamosh hai! You get the picture now?

گمنام کہا...

Rape is a crime not equivalent to sexual intercourse with consent under any circumstances and as a religious scholar Javed Ghamidi ( if they consider him scholar too, as he is Kaafir according to many schools of thought) says “ circumstances will be entirely different to prove the crime in these two different scenario”, Ghamdi added that in case of crime Shariat is not dictating you if scientific evidence is helping in interrogation so why not. 2ndly if they can use fingerprints as an evidence although no religious scholar is able to validate finger prints, it needs an expert to do that, they accept blood test based on scientific knowledge, why not to accept DNA test on the basis of DNA finger printing as experts of science suggest over the world?

گمنام کہا...

I think the above article explaining the things which hinder the DNA test as primary evidence based on scientific logics. There z no scene of DNA test in bil raza cases. Ghamdi sb z not a scientist. 100% agree with auther.

MAniFani کہا...

jazak ALlah khair kaseera

گمنام کہا...

https://www.ncjrs.gov/pdffiles1/nij/bc000614.pdf

منتظم کہا...

میرے خیال میں اپنی معلومات درست کر لیجیے، ان تمام نمونوں میں سے کوئی ایک اس مرد سے حاصل کیا جاتا ہے جو اس فعل کا مرتکب ہوا ہو تاکہ اس کو سیال مادے کے نمونے کے نتائج سے ملایا جا سکے۔
جہاں تک مزنیہ اور جگہ کا تعلق ہے اس کے جسم کے اندر یا باہر سے یا جس جگہ یہ فعل کیا گیا ہوں وہاں فرش، بیڈ، یا کپڑوں سے جنسی جرثوموں کا سیال مادہ کا نمونہ حاصل کیا جاتا ہے

اسلامی اصول و قانون آپ محترم کی طرح اندھے نہیں ہیں زمانے کی جدید چیزوں کو اختیار کرنا درست عمل ہے جہاں وہ تعلیمات اسلامی سے ٹکرانے کے بجائے اس کی مدد کریں۔
جزاک اللہ

گمنام کہا...

hats off Mr. Sajid. I was wondering why such a propaganda against this Fatwah...The people who are quoting Ghamidi sb, they should share this article first with him for asking his opinion on validity of DNA as a proof in zina cases.In fact every so called liberal wants to give his own fatwah without any knowledge about Islam and science...this article is a big slap on faces of such liberal fascists...keep it up sir :)

گمنام کہا...

ہر عمر کی بچیوں ، لڑکیوں اور خواتین سے گزارش ہے کہ گھر کے اندر و باہر ہمیشہ کم ز کم چار عاقل و بالغ نیکو کار مرد اپنے ساتھ رکھیں تا کہ خدا ناخواستہ اگر آپ کی عصمت دری ہو جاے تو آپ ان گواہ مردوں کو عدالت میں پیش کر کے انصاف حاصل کر سکیں ،(مردوں سے بھی گزارش ہے کہ پوری دلجمعی سے ''دخول '' ہوتے دیکھیں تا کہ اسلامی تقاضوں کو پورا کر سکیں ) نیز ڈی این اے ، فنگر پرنٹنگ وغیرہ کو بھول جایئں کیونکہ آپ کا مردانہ مذہب کسی بھی ایسی سائنسی و عقلی جدت کے خلاف ہے جو مظلوم عورت کو انصاف دلوا سکے .

گمنام کہا...

summum bukmum :(

منتظم کہا...

ہر زانی سے گزارش ہے کہ اپنا سیال مادہ، جنسی جرثموں سمیت مزنیہ کے جسم پر چھوڑنا مت بھولے اور ہر مزنیہ سے گذارش ہے کہ فعل کے تین گھنٹے کے اندر اندر عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائے، لاہور کی فارینزک لیب میں نمونہ جمع کروائے تاکہ اس کا بروقت ڈی این اے ٹیسٹ کیا جائے، اور باہمی رضا والوں آپ تو انجوائے کرو، ۔۔۔۔۔۔۔ انجوائے کرو سائنسی انصاف۔۔۔۔۔۔۔ لبرل انصاف

گمنام کہا...

this troll apparently has no clue that after rape the rapist always leaves a trail in form of dna somehow..i guess even in a porn movie you cant have four aaqil, baligh muslims to testify...this four witnesses requirement means that a rapist can never be punished unless he himself admits it...rapist ni kia porn movie banani hai keh wo char aaqil aur baligh logon ko ikkata kar ki rape kari ga? aur wo aaqil aur baligh ghulam asghar jisi log sirf tamasha di kingi????

گمنام کہا...

Sajid Has so many flaws here, he says everyone have a unique genetic make up or indivisual DNA, and then he says it is not acceptable to take a DNA test because there can be error in test, 2nd if anybody have seen process of adultery and it can be proved by DNA it will assist in that case, 3rd he says there is difference of procedure otherwie rape or adultery are same that is amazing on his part,4th if one can arrange for fake witness then witness should also be unacceptable in case of rape who is going to ask for chracter of witness, if it is adultery then DNA will prove it if rape also same, medical reports and DNA will prove what is wrong with that? 5th it is about reasoning not being liberal or religious, convince by reason,6th if scientist are rats then what are you as ii have seen Doctor with your name Sajid, so sugest a word for youself otherwise no option to say you the same.In last i will request you to read about forensic sciences a bit to help you reach on a better conclusion how a person should be attended after such cases and then what are biological material to be used to extract DNA, I hope you will find a better understanding and will let us know about that.

منتظم کہا...

نہیں وہ محبوبہ کو پکڑتا ہے اور خوب انجوائے کرکے سارے ایویڈنس چھوڑتا ہے اور سیال مادہ تو ضور چھوڑے گا کیوں کہ اسے پتا ہے کہ کسی کو بھنک پڑ گئی تو ڈی این اے ٹیسٹ ہو گا اور نیگیٹو ہو گیا تو بے عزتی ہو جائے گی۔ مطلب مجرم آپ شوائد پورے پورے چھوڑنے کی کوشش کرے گا اور آپ اسے ڈی این اے ٹیسٹ کر کے فوری جا پکڑیں گے۔۔۔۔۔۔۔ ماشاء اللہ

گمنام کہا...

sajid was raped by a molvi in childhood but couldnt prove it so he lost his mind and is no longer able to reason logically...any intelligent response to his posts is waste of time

منتظم کہا...

بہتر ہوتا کہ آپ ایک دو بار اور پڑھ لیتے کیوں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ایک بار پڑھنے سے سمجھ نہیں آتا

پہلی بات:ڈی این اے ہر انسان میں منفرد ہے اور ڈی این اے ٹیسٹ ہی اس کو ریڈ کرتا ہے لیکن وہ ایک عدد سیمپل کا مرہون منت ہوتا ہے اور زنا کے کیسسز میں سیمپلنگ کتنی مشکل ہے اس کے بارے اوپر بتا دیا

دوسری بات:زنا بالرضا میں متعلقہ افراد نے جرم کیا ، آپ نے ڈی این اے کو بنیادی شہادت بھی مانا ہوا ہے، اب ملزمان خود تو رہے عدالت جانے سے کہ ہمارا ٹیسٹ کرواؤ اور سزا دو کسی کے دیکھے اور شک پڑنے پر کیس عدالت پہنچتا ہے تو آپ کو سیمپل ہی نہیں مل سکے گا جس پر آپ کو ٹیسٹ کرنا ہے۔ کیسے سزا دیں گے؟ حیرت ہے انصاف کی

تیسری بات:اسلامی قانون میں زنا بالرضا یا زنا بالجبر دونوں جرم ہیں لیکن ان کی سزاؤں میں فرق ہے

چوتھی بات:اگر کوئی جھوٹا گواہ پیدا کرتا ہے تو عدالت جرح کرے گی اسی لیے چار گواہ رکھے گئے کہ جھوٹا نکلا تو کیس کمزور ہو کے دوسرے شواہد سے حل کیا جائے گا اور تعزیرات کے مطابق سزا دی جائے گی

پانچویں بات:یہ بلاگ محمد حنیف اور یاسر پیرزادہ کے خیالات عالیہ کے بعد لکھا گیا ہے اور مرکزی طور پر انہی کے گرد گھوتا ہے

چھٹی بات:کوئی سائنسدان چوہا نہیں ہوتا مگر جو لوگ مفت میں سائنس کی ٹھیکیداری کر رہے ہیں ان پر یہ لفظ بہت سوٹ کرتا ہے

مطالعہ کا مشورہ دینے کا شکریہ۔ یہ تمام پراسسز میں خود لیب میں کرتا ہوں

گمنام کہا...

Mr. Ghulam Asghar Sajjid, if you can became a scientist just within three months training in NIBGE with no background knowledge of molecular biology or Genetic engineering and then start giving conclusion about such big issue. As for me such person is science dummy and there is no surprise for me that you can write an article which is based on ignorant and the main thing is its self-contradictory nature. So I will suggest you that 1st you learn all about molecular biology before releasing any fatwa.

گمنام کہا...

Mr. Gulam Asghar Sajid is another Agha waqar.

گمنام کہا...

آپ ان کے بارے نہیں جانتے تو کسی کو غلط کیوں کہتے یں، ڈاکٹر غلام اصغر ساجد خود مالیکولر بائیولوجسٹ ہیں انہوں نے تمام باتیں سائنس کے لحاظ سے کی ہیں، آپ نے کوئی بات سائنس سے غلط ثابت نہیں کی

گمنام کہا...

yeh es jahil doctr ko parha di jie and un se kahi keh apni naam :ki sath doctor likh ki science ki to heen na karin


http://thelalajie.wordpress.com/2013/06/09/dna/

Unknown کہا...

اسلام نے چار گواہ کی شرط عیوب چھپانے کے لیے رکھی ہے۔اس کا مذاق کوئی باشعور مسلمان نہیں اڑا سکتا

گمنام کہا...

Few debates and reply to this FALSE and cheap post.
Debates

https://www.facebook.com/groups/city.of.lalamusa/permalink/588974351124184/

https://www.facebook.com/groups/rationalistspk/10152920256310173

An answer

http://blog-etrnager.blogspot.nl/2013/06/normal-0-false-false-false-en-us-x-none.html

گمنام کہا...

پساندہ سوچ کی عکاس بھونڈی تحریر

گمنام کہا...

تو چار مومنین وہاں بیٹھے کیا لائیو بلیو پرنٹ دیکھ رہے تھے؟

گمنام کہا...

but you did not mentioned how rapist would be punished if there are no four person watching the action with full consciousness?

Farooq Sami کہا...

غلام ساجد صاحب زندہ آباد۔۔۔۔ماشاءاللہ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ

Ameen کہا...

غلام ساجد صاحب۔ علماء کرام نے فتویٰ دیا ہے کہ ڈی این اے شرعی شہادت نہیں ہو سکتی۔ بھائی آپ کا کالم بھی پڑھ لیا ہے۔ مجھے یہ بتائیں کہ کہ علماء نے یہ تمام پوائنٹس بنا کر یہ فتویٰ دیا ہے ؟ نہیں۔ آپ کی بات ٹھیک ہے کہ پاکستان میں ٹسٹ کے سلسلے میں مسائل سامنے آ سکتے ہیں۔ اصل فتویٰ یوں ہونا چاہیے تھا کہ پاکستان کے موجودہ طبی حالات و سہولیات کی وجہ سے اسے شرعی سواہد نہیں مان سکتے۔
چاہ گواہوں کا مطلب پکی گواہی ہوتا ہے۔
کوئی یہ ثآبت کر دے کہ ڈی این اے دو انسانوں کے بھی ایک ہو سکتے ہیں تو یہ مسئلہ ہی ختم ورنہ تو یہ چار گواہوں پر بھاری ہو گا۔
پاکستان میں لیبارٹیز میں مسئلہ ہے تو عدالتوں میں گواہ بھی بکے ہوئے ہوتے ہین۔

گمنام کہا...

شکریہ جناب بہت اچھی تحریر ہے
اللہ آپ کے علم و عمل میں اضافہ فرمائے آمین۔

Arsi کہا...

بہت عمدہ!

ایک تبصرہ شائع کریں