جھنگ کی سیاسی صورتحال

on 2013-04-29


پیپرز کے دنوں میں سکھ چین کا ایک دن نصیب ہوا تو شہر یاترا کا لفظ شائد میرے قد قاٹھ سے بڑا ہے اس لیے آج میں نےشہر گردی کی - جعلی ڈگری یافتہ وزیر تعلیم پاکستان اور سپاہ صحابہ کے مرکز ہونے کی حیثیت سے الیکشن کی گہما گہمی فیصل آباد سے بھی 102 ڈگری زیادہ پہ ابل رہی ہے- روایتی مخالفین کے درمیان ٹاکرے کے باوجود نئے امیدواروں نے رنگ میں بلاشبہ بھنگ ڈال دی ہے ۔ پی پی پی کے طارق گیلانی فرزند پیر پٹھان اور دوسرے ہیں ڈاکٹر عبد الجبار - نام تو شائد اب تحریک انصاف کی مخصوص شفقت عام پر ، بدنام زمانہ شیخ وقار احمد کا بھی لیا جا نے لگا ہے جو تحریک انصاف کے ڈاکٹر ابو الحسن کی مخالفت کے باوجود عمران خان کا فیضان پا چکے ہیں- یوں یہ مقابلہ کم و پیش پانچ امیدواروں میں سجے گا -
بات ہو رہی تھی شہر گردی کی ، مقصد تھا ماحول دیکھنے کا عوام کے سینے پر سجے اسٹیکرز کو جاننے کا ، مجھے کروڑوں کی کمپین سے ہمیشہ نفرت رہی ہے ہزاروں لاکھوں کا ٹکٹ اور کروڑوں کی کمپین سے جو کوئی بھی اس قوم کا نمائندہ بنا ہے پھر اس کا ربط چند ٹکوں پر گزارہ کرنے والی غریب عوام سے نہیں رہا۔ لیکن کیا کریں یہ تو سیاست کا خاصہ ہے اب تو لوگ بھی اسے ہی ووٹ دیتے ہیں جو پورے پروٹوکول کے ساتھ ان کے دروازے پر دستک دے۔ خلوص اور پیار کی باتیں بس اب لکھنے پڑھنے تک ہی رہ گئی ہیں-
تو لیجئے بات شروع کرتے ہیں شیخ محمد اکرم سے ، سابقہ ایم این اے شیخ وقاص اکرم کے والد ہیں ، اس بار ابا جی, بیٹے سے ناراض تھے کہ تم نے لوگوں کو دور کیا ہے اس لیے باوجود ام وقاص کی ناراضگی کے یہ الیکشن خود لڑنے کا اعلان کیا - شیخ صاحب پرانے سیاست دان اور پرانے سرمایہ کار ہیں، شیخ وقاص اکرم کے دور میں شیخ صاحب کی سرمایہ کاری بسوں اورچھکڑوں سے ملوں اور فیکٹریوں تک پہنچ چکی ہے اس سرمایہ کاری کے اثرات اس الیکشن کمپین میں بھی نظر آرہے ہیں چپہ چپہ پر فلیکس بینرز، اسٹیکرز اور بڑے سائز کے 12 رنگوں سے سجے اشتہار ، شائد جھنگ کے سادہ شہریوں کے سادہ دلوں کو لبھانے کے لیے کافی سامان دیواروں اور کھمبوں پر لادھ دیا گیا ہے لیکن شکر کہ لوگ سادہ ضرور پر اندھے نہیں ہوئے اس کا اندازہ شیخ صاحب کو بھی ہو رہا ہے جو دس بارہ لوگوں کی کارنر میٹنگز سے دکھائی دے رہا ہے کہ اس بار معاملہ ہاتھوں سے نکل رہا ہے - عوام کی بد دلی تو ایک طرف نئے امیدواروں نے بھی اپنے اپنے ووٹر کو اچک لیا ہے-
دوسری طرف مولانا محمد احمد لدھیانوی ، سپاہ صحابہ کے سربراہ (میں اہلسنت والجماعت کا اصل نام ہی استعمال ہی کر رہا ہوں، کیونکہ ناموں کے دھوکے میں کوئی اچھائی نہیں ہے) ناموس صحابہ کے نام پر دین اور سیاست فرماتے ہیں لیکن کبھی کبھی ان کے ایک ووٹ سے ایسی فاسق حکومت وفاق میں جم جاتی ہے جو صحابہ کرام تو کجا قرآن اور سنت کی تقدس کے لیے بھی خطرہ بن جاتی ہے - یہ حقیقت ہے کہ ناموس صحابہ کے منجن پر جھنگ میں ایک اچھا خاصا حلقہ موجود ہے جو ہمیشہ سے نعرے لگاتا آ رہا ہے کہ "جان رب دی ۔۔۔۔ تے ۔۔۔۔۔ ووٹ جھنگوی دا" - خیر لوگ ووٹ بھی دیتے ہیں اور نوٹ بھی اسی لیے شیخ اکرم کی سرمایہ کاری کا مقابلہ اس چندہ سے کرنے کی پھرپور کوشش کی جا رہی ہے - ہر صاحب استطاعت "جھنگوی" نے اپنے تیئں اپنی تصاویر کے ساتھ فلیکس اور اسٹیکرز بنوا کر ماحول کو اپنے حق میں سدھار نے کی کوشش کر رہا ہے- سپاہ کا ناموس صحابہ کا منجن بھی اس بار زیادہ بکنے کے چانسسز نہیں ہیں کیونکہ لوگ سمجھ رہے کہ اس تحفظ صحابہ کی تحریک نے قتل، لاشیں ، خون اور بد امنی تو دی ہے لیکن صحابہ کی ذات پہلے بھی زیادہ نشانہ بنی ہے- دیگر نئے امیدواروں نے سپاہ کے عام ووٹر کو متاثر کیا ہے لیکن باوجود اس کے مذہبی اور فرقے کے ووٹ توڑنا بہت مشکل ہوتا ہے -
تیسرے مقابلے کے امیدوار ڈاکٹر عبد الجبار ہیں، طلبہ سیاست سے آغاز کرنے والے آج جماعت اسلامی کی طرف سے امیدوار ہیں ، سادہ سی شخصیت کے مالک ڈاکٹر صاحب میرے یونیورسٹی فیلو بھی ہیں اس لیے میں بلا شک و شبہ کہہ سکتا ہوں کہ جھنگ کے تمام امیدواروں میں سے سب سے زیادہ پڑھے لکھے امیدوار ہیں۔ ایک اور بات جو دوسروں سے مختلف کہ بگل بجنے پر نہیں آئے، عرصہ ڈیڑھ سال سے عوام کے ساتھ رابطے میں ہیں - مجھے شہر گردی میں اپنے دوستوں اور سابقہ کلاس فیلوز سے گپ شپ کا موقعہ ملا جو برملا کہہ رہے تھے کہ ڈاکٹر عبد الجبار نے ایک لمبی محنت کی ہے اور وہ اس محنت کے ثمر میں جیت سکتے ہیں- اشتہارات، اسٹیکرز اور فلیکس میں مات نہیں دے پائے دوسرے لفظوں میں بڑے امیدواروں کے مقابلے میں کوئی ماحول ابھی تک پیدا نہیں کر پائے- اس کی وجہ شائد یہ بھی ہو سکتی ہے کہ وہ کوئی بڑے سرمایہ دار نہیں ہیں، ایک گائنی ہسپتال کے مالک جو الخدمت کے نام سے چلتا ہے اور عام ہسپتالوں سے نسبتا بہت سستا اور غرباء کے لیے مفت ہے۔ جماعت اسلامی کا اچھا خاصہ ووٹ بنک شہر میں موجود ہے شہر کی تین گنجان آباد یونینز میں ناظمین (صہیب فاروق، بہادر خان جھگڑ اور حافظ عبد الجبار (فاران کالج والے) اور درجن بھر کونسلز سے ایک بڑا ووٹ رکھتے ہیں - جھنگ کے تمام مشہور تعلیمی اداروں پر ان کی اجارہ داری ہے اگر کوئی مربوط کمپین چلی تو تیسرا نیا نمائندہ جھنگ کے نصیب میں آیا چاہتا ہے 
طارق گیلانی معروف پیر پٹھان کے بیٹے اور پیپلز پارٹی کے امیدوار ہیں لیکن یہ خانہ پوری کے سوا کچھ بھی نہیں ، جھنگ کا حلقہ پیپلز پارٹی سے نا واقف ہے البتہ صدر زرداری کے نام اور کام سے ضرور واقف ہو گا ، رہ سہہ کے پیر پٹھان کے گنتی کے چند پیروکار اور ان کے زیر اثر حلقہ - البتہ پیسے کا استعمال ان کی طرف سے خوب کیا جا رہا ہے۔

ایک بات حالیہ منظر نامہ میں صاف نظر آرہی ہے کہ اب پرانے گڑھے جھنگ کے ماتھے سے مٹ رہے ہیں اور نئے اجالے جگہ پانے کو تیار ہیں 11 مئی کو کیا ہوتا ہے اس کا فیصلہ جھنگ کی عوام نے کرنا ہے کہ آیا وہ ان پرانے گڑھوں میں دوبارہ سونا پسند کرنا چاہتے ہیں یا ترقی اور خوشحالی کے نئے دور کا آغاز کرنا چاہتے ہیں-

6 تبصرہ:

گمنام کہا...



موصوف لکھتے تو کمال کا ہیں ۔ لیکن غیر جانبدار نہیں،
باقی سب امیدواران پر تو آپ نے تنقید ہی کی ہے لیکن جماعتِ اسلامی کے امیدوارمیں آپ کو ہر سو اجالا ہی اجالا والی بات نظر آئی خیر کیا ہو سکتا ہے ۔

سپاہ صحابہ سے شائد آپ جماعت والوں کو اس لئے بھی تکلیف ہی رہیتی ہے کہ آپ کے قائد عالی جاہ کے نزدیک بھی صحابہ کرام کی ذات تنقید سے بالاتر نہیں ہے ۔ اور وہ وقتاََ فوقتاََ اپنی تصانیف میں صحابہ کرام پر تنقید ،کر کر کے برصغیر میں ایک نئے فتنے کو جنم دیا ۔

اور ہاں دوسری جو سب سے اہم بات جوکہ مودودی کی ’’ جماعتِ اسلامی ‘‘ اور صحابہ کے سب سے بڑے دشمنوں میں بہت انقلابِ شیطانی ایران کے زمانے سے ہی قربتیں چلی آرہی ہیں۔ اس لئے بھی آپ نے صحابہ کے چاہنے والوں سے اختلاف تو کرنا ہی ہے ۔

تیسری سب سے اہم بات وہ یہ ہے کہ آپ نے جھنگ میں شیعہ ووٹرز کو بھی اپنی طرف متوجہ کرنے ہے جو کہ فی الحال پی پی کو ووٹ دینے کا سوچ رہے ہیں ۔

جہاں تک بات ہے ایک ظالم اور جابر کو ووٹ دینے کو اس ظالم اور جابر کے برسرِ اقتدار میں آنے کے بعد آپ کے قائدین مرحوم جناب قاضی صاحب نے خفیہ ملاقاتیں کی تھی۔ اور طالبان کے مقابلے میں شمالی اتحاد اور گلبدین کو سپورٹ کرنے کے باوجود اسمبلیوں میں پہنچنے کے لئے طالبان کی مظلومیت کا نعرہ لگایا تھا ۔ اور سترھویں ترمیم کے زریعے پرویز کی ظالم حکومت کو قانونی جواز فراہم کیا تھا۔ وہ شائد بالکل جائز تھا ۔۔۔۔۔۔۔ باقی خیر آپ نے جو ہوائیاں چھوڑی ہیں سو چھوڑی ہیں ۔

Unknown کہا...

موصوف لکھتے تو کمال کا ہیں ۔ لیکن غیر جانبدار نہیں،
باقی سب امیدواران پر تو آپ نے تنقید ہی کی ہے لیکن جماعتِ اسلامی کے امیدوارمیں آپ کو ہر سو اجالا ہی اجالا والی بات نظر آئی خیر کیا ہو سکتا ہے ۔

سپاہ صحابہ سے شائد آپ جماعت والوں کو اس لئے بھی تکلیف ہی رہیتی ہے کہ آپ کے قائد عالی جاہ کے نزدیک بھی صحابہ کرام کی ذات تنقید سے بالاتر نہیں ہے ۔ اور وہ وقتاََ فوقتاََ اپنی تصانیف میں صحابہ کرام پر تنقید ،کر کر کے برصغیر میں ایک نئے فتنے کو جنم دیا ۔

اور ہاں دوسری جو سب سے اہم بات جوکہ مودودی کی ’’ جماعتِ اسلامی ‘‘ اور صحابہ کے سب سے بڑے دشمنوں میں بہت انقلابِ شیطانی ایران کے زمانے سے ہی قربتیں چلی آرہی ہیں۔ اس لئے بھی آپ نے صحابہ کے چاہنے والوں سے اختلاف تو کرنا ہی ہے ۔

تیسری سب سے اہم بات وہ یہ ہے کہ آپ نے جھنگ میں شیعہ ووٹرز کو بھی اپنی طرف متوجہ کرنے ہے جو کہ فی الحال پی پی کو ووٹ دینے کا سوچ رہے ہیں ۔

جہاں تک بات ہے ایک ظالم اور جابر کو ووٹ دینے کو اس ظالم اور جابر کے برسرِ اقتدار میں آنے کے بعد آپ کے قائدین مرحوم جناب قاضی صاحب نے خفیہ ملاقاتیں کی تھی۔ اور طالبان کے مقابلے میں شمالی اتحاد اور گلبدین کو سپورٹ کرنے کے باوجود اسمبلیوں میں پہنچنے کے لئے طالبان کی مظلومیت کا نعرہ لگایا تھا ۔ اور سترھویں ترمیم کے زریعے پرویز کی ظالم حکومت کو قانونی جواز فراہم کیا تھا۔ وہ شائد بالکل جائز تھا ۔۔۔۔۔۔۔ باقی خیر آپ نے جو ہوائیاں چھوڑی ہیں سو چھوڑی ہیں ۔

Unknown کہا...

شرم تم کو مگر نہیں آتی۔
انتخابات کا بگل کب بجا موصوف اس سے بھی بے خبر ہیں۔
الفاظ کا غلط استعمال جانبدارانہ انداز تحریر موصوف کے پڑھے لکھے ہونے کا بھانڈا پھوڑ رہا ہے۔

Usman Ghani کہا...

الحمدللہ جماعت اسلامی نے امنے بہترین لوگ قوم کے سامنے پیش کیے ہیں۔غیر جانبدار لکھنے والا چاہ کر بھی ان میں تنقید کا پہلو نہیں نکال سکتا۔

مولانا مودودی پر آپکے عجیب و غریب اعتراضات کا جواب بارہا تفصیلا دیا جا چکا ہے۔ مگر چونکہ آپ لوگوں کی سیاست کا مکمل دارومدار ہی اس بات پر ہے تو آپ اپ تو تنقید کرتے ہی رہیں گے

اور قاضی صاحب نے کوئی خفیہ ملاقات نہیں کی۔دنیا کے سامنے ہوا جو کچھ ہوا۔
آپ لوگ ہمیں طالبان کی مخالفت کے طعبے دے رہے ہیں جو سیاست تو طالبان کے نام پر کرتے ہیں لیکن آپ کو اور آپکے "امیر المجاہدین" کو افغانستان میں جیاد کرنا کبھی یاد نہیں آیا۔
لیکن میرے سگے بھائی عبیدالرحمن شہید،ڈاکٹر ارشد وحید شہید افضل بٹ شہید سمیت ہم آج بھی ہزاروں نوجوان اس جہاد میں قربان کر رہے ہیں۔ اور ہمیں اس پر فخر ہے۔ اس بنیاد پر کوئی سیاست نہیں کرنا چاہتے۔صرف اللہ کے ہاں اجر کے متمنی ہیں

گمنام کہا...

jan rab di vote jhangvi da

Unknown کہا...

may i contact u heer sleeti from jhang

ایک تبصرہ شائع کریں