2013 انتخابات اہم کیوں؟

on 2013-04-18


جس طرح 70ء کی دہائی میں پاکستان کے اندر سوشلزم اور اسلام کے مابین ایک جنگ کی سی صورت حال درپیش تھی حالیہ ادوار میں اس طرح اسلام اور سیکولرازم و لبرلزم کے مابین ایک کشمکش بظاہر کم ہی نظر آتی ہے  حالانکہ ایسا نہیں ہے بیسویں صدی عیسوی میں جس طرح جنگوں نے اپنے اپنے طور طریقے بدل لیے ہیں  اور ففتھ جنریشن تک جا پہنچے ہیں اسی طرح تہذیبوں اور افکار نے اپنی اثر پزیری کے دوسرے لوازم اختیار کر لیے ہیں جو بظاہر نہ تو نظر آ رہے ہوتے اور نہ کسی ایسی کشمکش کے تناظر میں دیکھائی دیتے ہیں- اسلام کو جس طرح ریاست سے جدا کرنے کیلئے چند دنوں سےحکمت عملی اپنائی گئی ہے وہ بغیر کسی رکاوٹ کے جاری ہے۔
اس کا پہلا مظہر عاصمہ جہانگیر اور نجم سیٹھی کا عبوری حکومت کے لیے نامزدگی تھی، خوش قسمتی سے عاصمہ جہانگیر، عوام میں اپنی متنازعہ شخصیت کی بناء وفاقی عبوری حکومت کا عہدہ نہ سنبھال سکیں لیکن وہ نجم سیٹھی جسے لبرل اور سیکولر حلقوں کا قائد اعظم بھی کہا جاتا ہے، ماضی میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے ہاتھوں غداری کے مقدمات میں جیل کاٹ چکا ہے ، جسے پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسی ابھی تک غیر ملکی ایجنٹ تصور کرتی ہے ، ؐخصوصی عالمی سیکولر طاقتوں کی خواہش پر پاکستان کے اہم صوبہ ، صوبہ پنجاب کے عبوری وزیر اعلیٰ بنا دئیے گئے- نجم سیٹھی کیا کر رہے ہیں یہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے بسنت سے لے کر اہم دستاویزات کو اپنی چڑیا بنانے تک کون سا ایسا کام ہے جسے وہ اپنا ٹاسک سمجھ کر نہیں کر رہے؟
دوسرا مظہر اس وقت نظر آیا جس وقت مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف نے بیک وقت جماعت اسلامی سے ایڈجسٹمنٹ کرنے سے معذرت کر لی، پاکستان میں واحد مضبوط اسلام پسندوں کی طاقت کو آگے بڑھنے سے روکنے کے لیے یہ بہت ضروری تھا - مصر اور ترکی میں اسلام پسندوں کی حکومت آ جانے کے بعد عالمی سیکولر طاقتوں کو پاکستان سے خطرہ محسوس ہونے لگا ہے اس خدشے کا اظہار وائٹ ہاؤس میں پیش گئی ایک خصوصی رپورٹ میں بھی کیا گیا۔اگرچہ ان حالات میں یہاں کے اسلام پسندوں کے لیے بہت کم جگہ ہے لیکن اگر انہیں تھوڑا سا موقع فراہم کیا گیا تو مستقبل میں ان کے لیے عوامی دل جتنا بہت آسان ہو جائے گا اس لیے اس کا سدباب ضروری سمجھا جا رہا ہے
تیسرا مظہر 62، 63 کے گونج کا چڑھاؤ اور پھر اتار ہے، ایمان دار اور نیک قیادت کا شور اٹھا اور پھر خاموشی سے بیٹھ گیا، الیکشن کمشن کی نااہل اور نا تجربہ کار ذمہ داروں کی وجہ سے پاکستانی تاریخ میں پہلی بار 62، 63 کی خوشبو سے یہ الیکشن معطر ہوتے ہوتے رہ گئے لیکن اس کو دوبارہ کتابوں میں بند رکھنے میں امریکی سفیر کی سیکرٹری الیکشن کمشن سے ملاقات بہت اہم ثابت ہوئی کیونکہ اس کسوٹی پر شائد سیکولر اور لبرل حلقہ کسی صورت پورا نہیں اتر سکتا تھا۔ اور ملک میں موجود اسلام پسند طبقہ فائدہ اٹھا کر اسلام آباد پہنچ جاتا۔
چوتھا مظہر مذہب کے نام ووٹ مانگنے پر پابندی لگانا ہے اور اس کی خلاف ورزی کرنے والے کو تین کی قید کی سزا۔ اسلامی جمہوری پاکستان میں روشن خیالی کے نام پر، سیکولر ازم کی بنیاد پر اور کنسرٹس کا انعقاد کروا کر ووٹ مانگنے پر پابندی نہیں لگائی گئی بلکہ اس تشخص کی بنیاد پر ووٹ مانگنے پر پابندی لگا دی گئی ہے جس پر قائد اعظم محمد علی جناح ؒ نے پاکستان کی تشکیل "مسلم ہے تو مسلم لیگ میں آ" کا نعرہ لگا کر کی حالانکہ ان حالات میں بھی دیگر اسلامی و مذہبی جماعتیں موجود تھیں، اس سے بھی صاف نظر آتا ہے کہ اس پابندی کا مقصد اسلام پسندوں کا راستہ روکنا ہے
دوسری طرف جماعت اسلامی اور دیگر اسلامی جماعتوں کو خطرے کا احساس ہو رہا ہے ۔ سید منور حسن نے جس کا اظہار منصورہ میں ہونے والی پریس کانفرنس میں بھی کیا کہ ہونے والے الیکشن پر عالمی استعمار اور اسٹیبلشمنٹ حاوی ہو رہا ہے۔ لیکن یہ کیمپ سیکولرازم کی ان کوششوں کو روکنے کے لیے کوئی حکمت عملی اختیار کرے گا یا نہیں؟ بدقسمتی سے یہ حلقہ ایک دوسرے سے دور اور بد ظن ہے ۔۔۔۔۔۔ قاضی حسین احمد اگر کچھ دیر اور ہم میں موجود ہوتے تو عالمی استعمار کے مقابلے میں ایک بڑی دیوار کھڑی کر نے کی صلاحیت اور تجربہ رکھتے تھے لیکن افسوس اس وقت اس سیکولرازم کو کوئی مسئلہ درپیش نہیں ہے اور پاکستان میں اسلام کے سیاسی نظام کا جنازہ تیار کیا جا رہا ہے

2 تبصرہ:

DuFFeR - ڈفر کہا...

یار پتہ نی مجھے کیوں جانبدار جانبدار قسم کی تحریر لگ ری
نجم سیٹھی والی بات کو نکال کو
وہ بھی شاید اس لئے کہ اس بات پہ ھم دونوں کی سوچ ملتی ہے :)

منتظم کہا...

کاش باقی جگہ پر بھی سوچیں ملتی ہوتیں تو جانبدار جانبدار نہ محسوس ہوتی :)

ایک تبصرہ شائع کریں