مرسی: عرب دنیا کا نیلسن منڈیلا

on 2013-08-11


تحریر: توکل کرمان۔ نوبل انعام یافتہ یمنی سوشل رہنما  


فوجی شب خون کے ذریعے  مصری صدر ڈاکٹر محمد مرسی کو ہٹائے جانے کے فورا بعد میں نے  میدان رابعہ العدویہ میں  مرسی کے حق میں جاری مظاہرے میں شامل ہونے کا اعلان کیا۔ میرا گھر یمن کے شہر صناء میں ہے لیکن عرب بہار سے امیدیں وابستہ رکھنے والے میرے جیسے بہت سے لوگ  مصر  کی  ہونے والے واقعات کے سانجھی ہیں اس لیے میں نے چاہا کہ قتل ، تشدد کے ذریعے لوگوں کو احتجاج سے روکنا اور شب خون کی مخالفت کرنے والوں  کو زنداں میں ڈالنے کے خلاف  احتجاج کروں ۔ ایسے میں ہیومن رائیٹس کارکنوں اور ممتاز سیاستدانوں کی طرف   حیران کن خاموشی  مجھے ایک جرم لگتا ہے۔  ان لوگوں نے نہ صرف  آزادی کی خلاف ورزی پر مذمت کرنے سے 
انکار کیا بلکہ شب خون  کو پر جواز بنا کر اپنی حمایت کی یقین دہانی کروائی۔

میں  نے کھلا اعلان کیا کہ میں 25 جنوری 2011 ء انقلاب  کے پھل، آزادی رائے، آزادی اجتماع اور لوگوں کے ووٹ کے ذریعے اپنے حکمران چننے کے حق کے  تحفظ کے لیے میدان رابعہ العدویہ میں جانے  لگی ہوں۔ میں ، اس گرم جوشی  کی وجہ سے  شب خون کے حمایتی میڈیا کی طرف سے  زبردست مخالفانہ  کمپین کا  نشانہ بن گئی ۔ مجھے شب خون کے حمایتیوں کی طرف سے  جان سے مارنے کی دھمکی دی گئی حتاکہ  جاسوسی اور مصر کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی  پر عدالتوں میں لے جانے کی دھمکی دی گئی۔

4 اگست  کو میں اپنی دوست اور ایگزیکٹو ڈائریکٹر آف وومن جرنلسٹس ودآؤٹ چین ، بشریٰ السیرابی کے ساتھ قاہرہ ایئرپورٹ پر اتری  تاکہ میں اپنے مقصد کو پورا کر سکوں  میرے دماغ میں تمام ممکنہ مناظر موجود تھے، میرا خیال تھا کہ  مصری اتھارٹی مجھے مصر میں داخل ہونے دے گی اور بعد میں سڑک پر  میں  نشانہ بنوں گی اور اس سے زیادہ ہوا تو مجھے گرفتار، قتل یا عدالت میں گھسیٹا جائے گا۔
یہ میرا پر جوش سفر تھا لیکن یہ  ختم نہ ہوا جیسا میں چاہتی تھی اورسچ کہا جائے تو نہ ہی شروع ہوا ۔ ائرپورٹ پر  آتے ہی میں ویزا پراسس  کی تکمیل کے لیے لائن میں لگ گئی، تھوڑی دیر میں ائرپورٹ کے افسر نے مجھے پہچان لیا اور  مجھے  سپیشل کاؤنٹر پر جانے کو کہا جہاں میں نے  ڈپلومیٹک پاسپورٹس کی تمام  چیکنگ کو پاس کر لیا۔

اسی لمحے ہنگامہ شروع ہو گیا  افسروں کے فون بجنے لگے اور ایک افسر کی سرگوشی تو میں نے اپنے کانوں سے سنی جو کہہ رہا تھا کہ " توکل آ گئی ہے، توکل آ گئی ہے، ہم اسے داخل نہیں ہونے دیں گے" اس نے ایسے کہا جیسے میں خطرناک ترین شخص تھی۔
مصری افسروں نے مجھے اطلاع دی کہ ہم تمہیں مصر میں داخل نہیں ہونے دے سکتے اور جلد ہی آپ کو اسی جہاز سے واپس یمن ڈی پورٹ کر دیا جائے گا جس پر آپ آئی ہیں ، اتھارٹی  مجھے اس کی کوئی واضع وجہ بتانے سے قاصر رہی اور کہا کہ آپ ہم سے بہتر جانتی ہیں کہ آپ کو کیوں ڈی پورٹ کیا جا رہا ہے اور  میرا نام   سیکورٹی باڈی کے کہنے پر بلیک لسٹ کر دیا گیا۔

بدقسمتی سے میرے لیے ممکن نہیں کہ میں مظاہرین کے شانہ بشانہ میدان رابعہ العدویہ کے باہر کھڑے ہو کر ان کے ساتھ  نعرے لگا سکوں۔  ہمیں  جمہوریت، انصاف اور قابل فخر زندگی کا حق مانگنے والے لوگوں کے کھڑے ہونے میں شرم محسوس نہیں کرنا چاہیے کیونکہ یہ ہماری ذمہ داری ہے۔  مصر کی حالیہ حکومت نے مصری تاریخ کے پہلے منتخب صدر کو اپنے عہدہ سے ہٹایا ہے، 60 فیصد مصری عوام کی رائے سے بنے ہوئے دستور کو کالعدم کر دیا ہے اور اخوان المسلمون کے سیاسی ونگ فریڈم و جسٹس پارٹی کو مصر کی سیاست سے مکمل طور پرنکال دیا ہے۔ مصر کے مستقبل کے بارے  سوچنے والے کے پاس محدود آپشنز ہیں یا تو ہم  سماجی اقدار اور جمہوریت کی بات کریں یا  مارشل لاء،  
ظلم وستم اور  جبر کے ساتھ کھڑے ہو جائیں۔ 

Morsy Is the Arab World's Mandela کا اردو ترجمہ و تدوین

0 تبصرہ:

ایک تبصرہ شائع کریں