سنبل کا مجرم کون؟

on 2013-09-15



میں نے بہت سے پھول دیکھے ہیں، چمکتے رنگ برنگے خوشبو بکھیرتے کتنے سونے لگتے ہیں کہ انسان دیکھتا رہ جاتا ہے پر تھکتا نہیں، ان کی مہک سے جو سکون ملتا ہے وہ ساری تھکاوٹیں ، خوشیوں میں بدل دیتا ہے لیکن کل جو میں نے ایک پھول دیکھا لیکن دیکھنے کی ہمت نہ رکھ سکا تب سے میرے دل و دماغ میں انسانیت فلک شگاف چیخیں مار رہی ہے، پورا گلشن سسک رہا ہے اور سارے پھول تڑپنے لگے ہیں، کسی وحشی درندے نے ایک معصوم سے پھول کو یوں کچلا ہے کہ انسان کسی پکے ہوئے چھالے کی طرح پھٹ جانے کو تیار ہے، ہائے کس کا ماتم کریں؟ کس سے آہ و فریاد کریں؟ کس سے انصاف کی آرزو رکھیں؟

پانچ سالہ سنبل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاں وہ معصوم سا پھول جس کے چمکنے چہکنے کے دن تھے، گڑیاں پٹولے اور چھپن چھپائی کھیلنے کے دن تھے، ابھی تو وہ پینسل پکڑ کر اپنا نام لکھنا سیکھ رہی تھی، کل ہی اسکے باپ نے اسے ایک کاپی اور کتاب لا کر دی تھی کہ اس کے پڑھنے کے دن تھے لیکن آہ! انسانی وحشت کا شکار ہو گئی کہ انسانیت تار تار ہو گئی۔ اب وہ ان کاغذوں پر انسانیت کا ماتم لکھے یا اس المناک واقعے پر اپنے تبصرے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاں وہ لکھنا چاہتی ہو گی چیخ چیخ کر دنیا کو بتا دینا چاہتی ہو گی فریب کے سارے پردے دنیا والوں تمہاری آنکھوں سے اتار دینا چاہتی ہو گی لیکن کیسے لکھے وہ تو قلم پکڑنے کے بجائے زندگی اور موت کی کشمکش میں لاہور کے گنگا رام ہسپتال میں تڑپ رہی ہے۔

آج ہر شخص جس کے اندر انسانیت کی رتی بھر بھی باقی بچی ہو وہ تڑپ رہا ہے ، لیکن اس کی تڑپ صرف ہسپتال میں پڑی سنبل کے ٹرپنے سے ہے یا وہ اپنے اندر سے نکلتی انسانیت کے غم سے تڑپ رہا ہے؟ ہاں اسی لیے تو وہ سنبل کے مجرموں کو سر عام چوراہائے پر پھانسی لٹکانے کی بات کر رہا ہے لیکن کون جانے کہ سنبل کا مجرم کون ہے؟ کچھ لوگوں کو چار گواہوں اور ڈی این اے کی برتری ثابت کرنے کا بہانہ میسر آ گیا ہے، پولیس مشتبہ افراد کے گھروں پر چھاپا مار رہی ہے، چیف جسٹس سوموٹو ایکشن لے چکے، سوشل میڈیا پر کہرام مچ گیا اور الیکٹرانک میڈیا نے سنبل کا ہاتھ تھام لو کے راگ الاپنا شروع کر دئیے۔ ہو سکتا ہے ساری پاکستانی قوم اپنی اس تگ و دو سے پھول مسلنے والے اس غیر انسان کو نشان عبرت بنا دے لیکن سنبل کا مجرم جی ہاں پھولوں کا مجرم گلابوں کا مجرم یونہی انسانیت پر وار کرتا رہے گا

لیکن یہ دنیا اس مجرم کی بات تک نہیں کرے گی کیونکہ یہاں چور ہی چور، چور کا شور مچا رہا ہے۔سنبل کا مجرم عیاں ہے اس کے لیے نہ تو چار گواہ چاہیں اور نہ ڈی این اے کا ٹیسٹ، اور نہ اس پر چھاپا مارنے کے لیے کسی کھوجی کی ضرورت ہے۔ کسے نہیں معلوم کہ اقدار اور اخلاق کو بھلا دینے کی بات کون کرتا ہے؟ وہی تو سنبل کا مجرم ہے ۔ کون ان نوجوانوں کو آزاد روی اور روشن خیالی کے گھوڑے پر چڑھا کر انسانیت کو پار کرنا سکھا رہا ہے؟ کون ہے جو مادر پدر آزادی کے نعرے لگوا رہا ہے؟ وہی تو سنبل کا مجرم ہے۔ کون ہے جسے obscene کی آج تک تعریف نہیں مل سکی وہی تو سنبل کا مجرم ہے ، کون ہے جو برہنہ وڈیوز دکھاتا ہے؟ کون ہے جو  نیم عریاں عورتوں کا ناچ اور جسمانی نمائش کے لئے ڈریس شوز، انگریزی فلموں کے سیکس کے مناظر یا بوس وکنار، گانوں کے بےہودہ بول، فلموں کے واہیات ڈائیلاگ اور تقریباً برہنہ عورتوں کی نیم عریاں چھاتیوں، ننگے پیٹ اور برہنہ ٹانگوں کی نمائش  دکھا کر قوم کے نوجوانوں سے انسانیت نکال رہا ہے؟ ہاں وہی تو سنبل کا مجرم ہے۔ کون اباحیت کا وکیل بن کر ہزاروں سنبلوں کے لیے حیاباختہ نوجوان تیار کر رہا ہے؟  وہی تو سنبل کا مجرم ہے ۔

لیکن کون ہے جو سنبل کے ان مجرموں پر ہاتھ ڈالے ، کون ہے جو ان کے خلاف بولنے کی جرات کرے کیا تم نے انصار عباسی کا حال نہیں دیکھا ؟ جس کے لفظ لفظ پر آج بھی یہ انسانیت کے ٹھیکیدار ماتھے پر شکنیں ڈالے بیٹھے ہیں۔ کیا قاضی حسین احمد کے درد کو نہیں محسوس کیا جو بوڑھا  سپریم کورٹ میں ان مجرموں پر ہاتھ ڈالنے گیا تھا وہ ابھی لوٹ کر نہیں آیا - آج وہ ڈاکٹر مہدی حسن کہاں ہے ؟ ایکسپریس ٹریبیون کا ضیاءالدین کہاں ہے کون ڈھونڈ لائے ان مجرموں کے وکیلوں کو جنہوں نے معاشرے کو مجرموں سے بھر دیا ہے دکھاؤ انہیں ہ obscene کی کیا تعریف ہوتی ہے، دکھاؤ انہیں سنبل کا تڑپتہ لاشا ۔ ڈھونڈو یاسر پیرزادہ کو جنہیں اپنے قبیل کے ہر لفظ سے انسانیت اور ہر چینل پر آزادی نظر آتی ہے لیکن اس آزادی پر پلنے والے سنبل کے مجرم نظر نہیں آتے لوگو! ڈھونڈو ان کو شاید یہ سنبل کے لیے انصاف مانگنے کا ناٹک کرتے اگلی صفوں میں نظر آئیں کیونکہ یہ سب چور کے شور میں چور چور کرتے ہیں لیکن سنبل کے مجرم ان کی گٹھلیوں پر پل رہے ہیں۔

0 تبصرہ:

ایک تبصرہ شائع کریں