تعمیر تعلیم سے

on 2013-11-04

علم اگر خزانہ ہے تو تعلیم اس کی کنجی ہے لیکن تعلیم صرف علم کے ذخیرے کا دروازہ ہی نہیں کھولتی بلکہ اس سے بڑھ کر انسان کو ایک نئی دنیا سے روشناس کرتی ہے، اسی لیے کہتے ہیں کہ تعلیم محض حصول علم کا ذریعہ نہیں بلکہ علم کے مختلف ذرائع پر تحقیق اور جستجو کا نام ہے تاکہ اسے انسانی فلاح کا ذریعہ بنایا جا سکے اور پھر آئندہ نسل تک منتقل کیا جا سکے۔ اب یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ علم کے بغیر تعلیم ممکن نہیں اور تعلیم کے بغیر اقتصادی، سیاسی، تہذیبی اور سماجی ترقی ممکن نہیں ساتھ ہی ساتھ اخروی فلاح کا دارومدار بھی ہماری تعلیم سے ہے۔ قصہ مختصرمجموعی طور پر انسان کی کامیابی، فلاح اور ترقی کے لیے علم کے بعد جس چیز کی اہمیت ہے وہ تعلیم ہے۔


علم کسی کی میراث نہیں ہے ، مفت کا گھڑا ہے جو چاہے جتنا چاہیے پیتا چلا جائے اگرچہ معمولی نوعیت کی کاپی رائیٹ کے تحت کمرشلائزیشن ہوئی ہے لیکن یہ علم کے دریاؤں کا گلہ تر رکھنے کے لیے ضروری ہے۔ دنیا بھر میں بے کراں وسعتوں میں ، مختلف ذائقوں سے بھرپورعلم کے سمندر موجود ہیں جو ہر شخص، گروہ،قوم اور ملک کو برابر موقع دینے ہیں اور بلاتے ہیں کہ ہے کوئی ترقی چاہنے والا، ہے کوئی کامیابی چاہنے والا، ہے کوئی فلاح چاہنے والا، ہے کوئی پیاسا؟ ہر شخص ، گروہ، قوم اور ملک کی اپنی اپنی ترجیحات ہیں کوئی اقتصادی ترقی کر کے خوشحال جینا پسند کرتا ہے، کوئی سیاسی ترقی کر کے زمانے پر حکمرانی کرنا چاہتا ہے، کوئی تہذیبی و سماجی ترقی کر کے معاشرے کی نس نس میں دوڑنا چاہتا ہے اور کوئی دینی ترقی کر کے اپنے خدا کی خوشنودی حاصل کرنا چاہتا ہے۔ بحیثیت ایک مسلمان ہمارا دین ِکچھ طریقہ کار اور اصول و احکام وضع کر کے زندگی اور آخرت کے ہر شعبہ میں ترقی کا تقاضا کرتا ہے۔ رہبر اعظم ﷺ اس کے لیے آپ کو چین بھی بھیجنے کو تیار ہے تاکہ تم وسیع علم جمع کر لو اور پھر کامیابی، فلاح اور ترقی کے زینے چڑھتے چلو۔


اسلام جتنا زیادہ علم اور تعلیم پر زور دیتا ہے ، اسلام کا قلعہ اتنا ہی زیادہ اس معاملے میں زبوں حالی کا شکار ہے۔ قیام پاکستان سے لے کر آج تک اسلام کو جس طرح طاقوں یا ذاتی معاملہ قرار دے کر افراد نے اپنی اپنی جیبوں میں ڈالا ہوا ہے وہ تو اس وسیع ترقی میں رکاوٹ تو ہے ہی لیکن عملاً جو اقوام اور ممالک ہماری اقتصادیات، سیاسیات یا سماجیات پر حاوی ہیں ہم نے ان سے بھی سبق نہیں سیکھا اسی لیے وہ ہمیں ضرور سبق سکھا رہی ہیں چاہے تو اقتصادی شعبہ ہو، سیاسی ہو، یا سماجی اور تہذیبی ہو اور تو اور اب وہ ہمیں دینی شعبہ میں بھی سبق سکھانے میں باک محسوس نہیں کرتے۔ ذرا بھر جو علم کی خواہش اور تعلیم کی کوشش ہم کرتے ہیں یہ اقوام اور ممالک اسلام کے دئیے گئے طریقہ کار اور اصول واحکام کے بجائے اپنے اصول و ضوابط اوراسلوب پر ہمیں مجبور کرکے ہمیں محدودکر دیتے ہیں۔


خیر سے ہمارے حکمران بھی اس قدر نااہل واقع ہوئے ہیں کہ بجائے اس ملک کو محدود دائرے سے اٹھا کر علم کے وسیع میدان میں ڈالتے ،تعلیم کا بندوبست کرتے اور تعمیر و ترقی یافتہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی بنیاد رکھتے انہوں نے ترقی یافتہ ممالک کے قدموں میں سجدہ کرنا ہی ترقی کا زینہ سمجھ لیا اور بجائےاسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں تعلیم کی نئی اصلاحات سامنے لاتے اپنے محلات، بنگلوں اور فارم ہاوسسز کی تزین و آرائش پر ہی مگن رہے ۔ یہ سلسلہ ابھی تک رکا نہیں ایسے میں ملک ِپاکستان کی مسلسل الزامات کی زد میں رہنے والی طلبہ تنظیم اسلامی جمعیت طلبہ نے "تعمیر تعلیم سے" کے نام سے حساس اور فکر مند پاکستانیوں کو بیدار کرنے کی ایک کوشش کا آغاز کیا ہے۔


تعمیر تعلیم سے اس گمشدہ کلید کی تلاش کی کوشش کا نام ہے جس سے ہماری فلاح و ترقی کا باب کھل سکتا ہے۔ہمارے تعلیمی نظام میں بے شمار خامیاں ہیں بہت سی ہماری اپنی پیدا کردہ ہیں اور کچھ محکومی نے اس پر لادھ دی ہیں۔ یہ ان تمام مسائل کا ادراک کرنے اور کروانے کی کوشش ہے ۔ہمارے روایتی سرکاری اسکول بھی ہیں جو ساٹھ کی دہائی سے آگے نہیں بڑھ سکے ، تعلیمی نظام تو شاید بعد میں، وہاں تعلیم کے حصول کے لیے سہولیات بھی موجود نہیں۔ ہر حکومت ڈھائی فیصد دے کے 60ء سے آج کے دور میں جست بھرنے کا اعلان کرتی ہے لیکن دنیا کمپیوٹر، آئی پیڈ، ڈیجیٹل لائبریری، ملٹی میڈیا اور ای لائبریری تک پہنچ گئی اور یہ اعلان اسکولوں میں بنیادی کمپیوٹر کی سہولت مہیا نہیں کر سکا۔ بڑے اداروں کا حال بھی اسکولوں سے زیادہ اچھا نہیں ہےریسرچ اور لیباٹریز عدم سہولیات کا شکار ہیں، مالی مسائل مسلسل بڑھ رہے ہیں جس کےنتیجے میں فیسوں میں اضافہ ہوتا ہے اور غیر ملکی فنڈنگ کے لیے غیر ملکی ایجنڈے تسلیم کرنا پڑتے ہیں لیکن قرضوں اور امداد سے تعلیم بہتر نہیں ہو سکتی اسی لیے ہمارے تھیسسز کٹ کاپی پیسٹ سے آگے نہیں بڑھ رہے۔ استاد کا پیشہ انتہائی مقدس ہے جس پر تنقید کرنے کے لیے انتہا درجے کی اخلاقی قوت اور علم درکار ہے لیکن یہ استاد معمار پاکستان کی صلاحیتوں پر کم کم ہی پورا اترتے ہیں ہر ادارے میں طالب علم سے ایک ایفیڈوٹ بھروایا جاتا ہے کہ وہ سیاسی سرگرمیوں کا حصہ نہیں بنے گا اور وہی طالب علم اساتذہ کی داخلی و نجی سیاست کا نشانہ بنتا ہے اور تعلیمی حرج ہوتا ہے۔اپنے اصول و ضوابط اور احکام کی روشنی میں نظام تعلیم کی عدم موجودگی سے یہ مسئلہ بھی پیدا ہوا ہے کہ ایک سے زائد تعلیم نظام اس ملک میں پیدا کر لیے گئے ہیں جس میں ایک غریب کا نظام ہے جس میں ٹاٹ کا فرش ہے اور قلم دوات سیاہی کے سوا کچھ نہیں ہے، اس لیے وہ تو تعلیم سے تعمیر کرنے کے قابل ہی نہیں دوسرا انگلش میڈیم ہے جو مڈل کلاس سفید پوش لوگوں کے لیے بنا یا گیا بظاہر انگلش میڈیم تصور کیے جانے والے کا حال "کوا چلا ہنس کی چال اور اپنی چال بھی بھول بیٹھا " کی طرح ہے ، اردو کے ننگے ہاتھ سے علم کو محسوس کرنے سے قاصر انگلش کو ترقی کا زینہ سمجھتے ہوئے انگریزی دستانہ پہن کر جو علم کا احساس رکھتے ہیں اس سے ملک تو ترقی کرنے سے رہا اپنی دو وقت کی روٹی کے لیے بھی انٹرویو بڑی مشکلات سے دے پاتے ہیں تیسری قسم آکسفورڈ نظام تعلیم ہے جو پاکستان کے باقی طبقات کو ہیچ تصور کرتے ہیں اور اس سماج سے انہیں کوئی سروکار نہیں ہوتا۔یہ تو چند چیدہ چیدہ مسئلے ہیں لیکن مسائل کی لسٹ بہت طویل ہے ۔

آج اسلامی جمعیت طلبہ ایک بار ان جیسے مسائل میں گھرے پاکستان کے تمام باشعور لوگوں کو بیدار کر رہی کہ تعمیر صرف تعلیم سے ممکن ہے۔یہ احساس ِبیداری ایک مطالبے کی شکل میں الیکڑانک اور سوشل میڈیا کے ذریعے سےاہل اختیار کے سامنے بھی رکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ محض تسبیح کے ورد سے سم سم نہیں کھلنے والا۔ اسلامی جمعیت طلبہ کی یہ خوبصورت کاوش محض ایک سرگرمی کے طور پر نہیں عملی سرگرمی کے طور پر ڈھالنے کی کوشش کرنا چاہیے ۔ واہ واہ کمال بہت اچھے سے نکل کر اس مہم کو خدمت ملک و ملت کی تعمیر میں کوئی عملی صورت پیدا کرنے کا محرک بننا ہو گا ورنہ تعلیم کے نام پر اس قسم کے پروگرامات بہت سی این جی اوز اس ملک میں کر رہی ہیں۔اس" تعمیر تعلیم سے "مہم سے اسلامی جمعیت طلبہ کو ایک این جی او کے بجائے طلباء کی نمائندہ اور پاکستان کی بہی خواہ تنظیم کے طور پر ابھر کر سامنے آنا چاہیے اسی سے اس کاچہرہ شفاف ابھرےگا جو مخالفین اور اپنی غلطیوں سے گرد آلود ہو چکا ہے۔

0 تبصرہ:

ایک تبصرہ شائع کریں