دہشتگردوں کے چند اقوال زرّیں

on 2013-12-27
یہ بلاگ اُن امن پسندوں اور اُن کے حواریوں کے نام
جن کی امن پسندی اور حسن اخلاق سے متاثر ہو کر
تُورا بُورا کے سخت پہاڑ بھی رائی بن گئے۔
سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ ۔۔۔ان کا نام ہے دنیا بھر کے امن پسند انہیں موجودہ دہشت گردی کا بانی لکھتے ہیں۔ اِنہوں نے دہشت گردوں کی ایک منظم جماعت بھی تشکیل دی جسے "اُم الارھابین" مطلب دہشت گردوں کی ماں کا خطاب   دیا جاتا ہے۔ بعض لوگ انہیں چورپسندبھی کہتے ہیں اسکے پیچھے بھی ایک عجیب واقعہ    روایت کیا جاتا ہے کہ ایک بار اُن کے گھر چور گھس آئے اور چھوٹا موٹا سامان اٹھا کر بھاگ نکلے ، جب اگلے دن اپنے دہشت گرد ساتھیوں کو چوری کی واردات  سنا رہے تھے تو جہاں جہاں چور کا نام آتا  چہک چہک کر چور صاحب  بولتے جاتے۔ ایک  معصوم امن دوست  شخص دنیا کو اس دہشت گرد سےپاک کرنے کیلئے ان کے گھرآن ٹپکا،  سفید چمکدار باریش چہرہ  اور چند لمحوں کی باتیں سن کر  ایسی دہشت چھائی کہ قتل کرنے کی غرض سے چھپایا ہوا چاقو ، روتے ہوئے نکالا اور  ان کی جھولی میں رکھ دیا۔



یہی دہشت گرد اپنے پیرو کاروں کو ہدایات دیتے ہوئے کہتا ہے کہ:

آپ کسی حال میں مشتعل نہ ہوں اپنی زبان اور مزاج پر قابو رکھیں اور جب کبھی اشتعال کی کیفیّت ابھرتی محسوس ہو اسے نزع شیطانی سمجھ کر اللہ کی پناہ مانگیں۔۔۔۔۔ مخالفین سے خواہ آپ کو کتنا ہی رنج پہنچے، آپ اسے رنج و افسوس تک محدود رکھیں اور نفرت تک ہرگز نہ پہنچنے دیں۔۔۔

ایک اور جگہ ہدایت کرتے ہیں کہ:
جسے  ہمارے ساتھ اسلام کے راستے پر چلنا ہو اس کے لیے بہترین حکمت یہ ہے کہ اگر راستے میں کسی کانٹے سے اس کا دامن الجھ جائے تو ایک لمحہ ٹھہر کر دامن چھڑانے کی کوشش کرے اور جب وہ چھوٹتا نظر نہ آئے تو اپنا راستہ کھوٹا کرنے کے بجائے دامن کا وہ حصّہ پھاڑ کر کانٹے کے حوالے کرے اور آگے روانہ ہو جائے۔


ان سے کون واقف نہیں  ثابت اور تصدیق شدہ دہشت گرد  اعظم۔۔۔۔۔ کراچی کے چند گز مکاں کا مالک ، دہشت گردوں کے گڑھ منصورہ ، لاہور کے مہمان خانے میں ایک چھوٹے 
سے کمرے کا باسی سید منور حسن۔۔۔۔۔۔ 
چند دن پہلے کی بات ہے کہ نذیر احمد کاظمی   فکری و نظریاتی مخالف  ۔۔۔۔ دبئی میں انتقال کر گیا۔ اخبار میں خبر پڑھی تو پریشان ہو گئے، اپنے احباب سے کہا کہ کاش  مجھے اس کے خاندان کا رابطہ نمبر مل جائے کیوں کہ ان کے خاندان سے مرحوم کے فکر و نظریاتی ہمسفرتعزیت نہیں کرنےوالے۔۔۔   دہشت گردوں کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہتے ہیں۔
شب و روز بدلتے رہیں گے،  مشاغل کے اندر تبدیلی آتی رہے گی، زندگی اپنی ترجیحات کو تبدیل کرتی رہے گی، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے اندر نصاب بھی بدلتے رہتے ہیں نظام کی تبدیلی کی بات بھی کی جاتی رہے گی اساتذہ اپنے کردار کے اعتبار سے اگر کسی  کا خیال  ہے کہ پہلے جیسے نہیں رہے تو یہ آپ کا موضوع نہیں ہے ،آپ کا موضوع یہ ہے کہ آپ جوکل تھے وہ آج ہیں یا نہیں، جیسا ہونا چاہیے ویسےہیں یا نہیں۔


یہ بھی دنیا کا ایک دہشت گرد اعظم گردانا جاتا ہے، قاہرہ کی ایک سڑک پر امن پسندوں نے اسےاس وقت قتل کر دیا گیا جب یہ دہشت گرد مسجد سےنماز پڑھ کر اپنے گھر جا رہا تھا۔ اپنے دہشت گرد ساتھیوں سے  ہیبت زدہ باتیں کرتے ہوئےکہتا ہے:
اے اخوانیو! کیا تم اس وقت کے فاقوں کے لیے تیار ہو جب تمام لوگوں کے پیٹ سیر ہو کر ڈھلک رہے ہوں۔۔۔ ۔۔کیا سرد راتوں  میں پہرہ دینے کے لیے تیار ہو جب تمام لوگ گرم بستروں میں نیند کے مزے اڑا رہے ہوں ۔۔۔۔۔ کیا اس وقت دھوپ میں کٹھن کام کرنے کے لیے تیار ہو جب باقی لوگ ٹھنڈی چھاؤں میں آرام کر رہے ہوں۔۔۔۔۔ اور آخری بات کہ کیا تم ایسے لمحات میں مرنے کے لیے تیار ہو جب لوگ ایک مزیدار زندگی سے لطف اندوز ہوتے ہوئے جی رہے ہوں۔۔۔
ابھی بھی اس دہشت گرد کا من ٹھنڈا نہیں ہوا تھوڑے وقفے کے بعد پھر لب کھلتے ہیں اور دہشت گردوں کو ترغیب دیتے ہوئے کہتا ہے:

اے اخوانیو! لوگوں کے ساتھ ایک پھلدار درخت کی طرح پیش آؤ ۔۔۔۔۔ جس پر لوگ پتھر مارتے ہیں  ۔۔۔۔ اور وہ    ۔۔۔ ان کی جانب لذید مٹھاس سے بھرے پھل پھینکتا ہے۔
اے اخوانیو! جب تم دیکھو کہ لوگ نفرتوں اور مخالفتوں کی چھونپڑیاں تعمیر کر رہے ہیں تو ان کو مسمار کرنے  سے پہلے ان کے سامنے برداشت اور کردار کے  عالیشان محل بنا کر کھڑے کردو۔۔۔۔ ان کی پرواز کے الٹ اڑو ۔۔۔۔ چاہے وہ اپنے باطل پن میں جیسے ہی کیوں نہ پیش آئیں۔



یہ  وقت کا ایک اور دہشت گرد  جو دہشت گردوں کا مرشد عام بھی ہے۔۔۔۔ ڈاکٹر محمد بدیع ۔۔۔۔ جسے مصر کی فوج نے  گرفتار کیا اور جیل کی سلاخوں کے پیچھے بند کر دیا۔ اس دہشت گرد نے اپنی گرفتاری کے خلاف کوئی ہتھیار تو کجا لفظی مزاحمت تک نہ کی ۔۔۔۔۔ میدان رابعہ العدویہ میں لاکھوں دہشت گردوں سے  مخاطب ہوتے ہوئے کہتا ہے:
ہمارا انقلاب پر امن انقلاب ہے اور پرامن ہی رہے گا
اور ہمارا امن ان کے ٹینکوں سے زیادہ طاقت ور ہے

مصر کے امن پسندوں بغیر کسی ذاتی جانی و مالی  نقصان کے  8000 سے زائد دہشت گردوں کو  صفحہ ہستی سے مٹا کر جماعت  اخوان المسلمون کو دہشت گرد قرار دیتے ہوئے پابندی لگا دی ہے صرف پابندی ہی نہیں بلکہ ہر وہ شخص جو اس سے اپنا تعلق استوار کرے گا، اس کی مالی مدد کرے گا یا اس جماعت کے حق میں لکھے گا وہ بھی دہشت گرد کہلائے گا۔ پاکستان میں بھی کراچی کے نامعلوم امن پسندوں کی پھرپور کوششیں جاری ہیں کہ جماعت اسلامی جیسی دہشت گرد تنظیم پر پابندی لگائی جا سکےتاکہ ان کی امن پسندی کو سکون کا سانس ملے۔

4 تبصرہ:

Syed Owais کہا...

بهت اعلی

Unknown کہا...

آپ بھی علمی دہشت گردی پھیلا رہے ہیں ۔۔۔

افتخار اجمل بھوپال کہا...

سبب خواہ کچھ بھی ہو مجھے پسند نہیں آیا کہ ان لوگوں کے نام کے ساتھ دہشتگرد لکھا جائے ۔ اگر شیطان کے پیروکار لکھتے ہیں تو لکھتے رہیں ۔ اُن سے اچھائی توقع رکھنا ہی عقل سے بعید ہے ۔ میں بچپن میں شعر پڑھا تھا
عُرفی مندیش ز غوغائے رقیباں
آوازِ سگاں کم نہ کند رزقِ گدا را

منتظم کہا...

کاش یہ شرم ان کو ہی آ جائے لیکن ظاہر ہے وہ ایسے ہی تو نہیں آ جائے گی البتہ شاید ایسے محسوس ہونے لگے اسی لیے بلاگ کی پیشانی پر میں نے انتساب انہی کے حضور پیش کیا ہے

ایک تبصرہ شائع کریں