تنقید و تفکر کا قتل عام

on 2014-01-14

تنقید اور تفکر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔!

تنقید اور تفکر ارتقائےِ انسانی کے ماخد کہلائے جاتے ہیں۔ اگر ان کے لفظی مطالب کی طرف جائیں تو تنقید عربی لفظ نقد سے ماخوذ ہے جس کا مطلب "کھرے اور کھوٹے کو الگ کرنا" ہے۔ تفکر، فکر سے ماخوذ ہے جس کا مطلب "غور کرنا اور جاننا" ہے۔ 

جدید رجحانات میں ایک عرصے تک دونوں کی اہمیت برقرار رہی اور کسی حد تک اب بھی مروج ہے۔ ایک آلے کے طور پر اس کا استعمال نظریاتی، سماجی، عمرانی اور نفسیاتی علم و فلسفہ میں کیا جاتا رہا لیکن لبرل ازم نے اس پر ایسی کڑی لگائی کہ ایک بڑی تعداد میں جدید اور مابعد جدید ادباء و شعراء اور صد فیصدی معاشرتی و سیاسی پنڈت اب خود کو اس سے آزاد تصور کرتے ہیں اور آزاد تفکر اور ماروائے تنقید پر اعتقاد رکھتے ہیں۔ جب ہم اس کی وجوہات کی طرف دھیان دیں تو لبرل ازم کے انفرادیت پسندی کے بعد دوسرے بڑے اصول آزادی کو علیحدہ بھی رکھ دیں تو تنقید و تفکر کے اصول کو بھلائے دینا اور تنقید و تفکر کے بجائے طنز و مخالفت کو متحرک پاتے ہیں۔

تنقید و تفکر کی بنیادوں میں یہ اصول و ضوابط کوٹ کوٹ کر بھرے ہوئے ہیں کہ عدل و انصاف کی کسوٹی پر ذاتی نظریات و اعتقادت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ان دونوں آلات کا استعمال کیا جائے اسی سے وہ ارتقا ممکن ہے جو انسانی فلاح کا موجب بن سکتا ہے۔

لیکن افسوس صد افسوس دائیں اور بائیں دونوں طرف تنقید کے نام پر طنز اور شدید مخالفت کی جاتی ہے ۔ تفکر کے نام پر ذاتی آراء کے لیے دائرۃ المعارف میں نقب لگائی جاتی ہے ۔ اس کے بعد اس بات پر بھی زور دیا جاتاہے کہ ان کی ان کاروائیوں کو تنقید و تفکر کے اصل درجہ پر رکھ کر قدر کی نگاہ سے دیکھا جائے۔

نوٹ: یہ راقم کا ذاتی تجزیہ ہے اور عمومی تناظر میں لکھا گیا ہے لہذا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

2 تبصرہ:

افتخار اجمل بھوپال کہا...

بالکل درست کہا آپ نے لوگ کہتے ہیں انسان ترقی پا رہا ہے ۔ میں مطالعہ کرتا ہوں تو محسوس ہوتا ہے کہ عِلم کی تلاش میں سرگرداں انسان عِلم سے دُور ہوتا جا رہا ہے ۔ صرف ظُلم کو اوزار بنانے اور استعمال کرنے میں بہت ترقی کر رہا ہے ۔
متفکر تو ہونا ہی پڑتا ہے جی کیونکہ غور و فکر کئے بغیر آدمی انسان نہیں بن پاتا ۔

فاروق درویش کہا...

بجا لکھا ہے ساجد بھائی ۔۔۔۔ ہماراے صاحبان تحریر اور معاشرے کا المیہ ہے یہاں کھری تنقید کو ذاتی اختلافات کا نتیجہ قرار دیکر خود کو شریف ابن شریف فرشتے ثابت کرنا معمول کی بات ہے۔ ۔۔۔سدا خوش آباد

ایک تبصرہ شائع کریں