مسئلہ ریاست کے اختیار کا

on 2013-05-17



سچی بات ہے ہم مخصوص "مائنڈ سیٹ" سے باہر سوچنے کے عادی ہی نہیں، ہم خود کو اسلام پسند کہلانے پر بہت خوشی محسوس کرتے ہیں لیکن اسلام کے حوالے سے ہر بات ہمیں ہی بری لگنے لگی ہے- یہ حقیقت ہے کہ آپ اسلام کے نام پر کوئی کام نہیں کر سکتے، اس کے پیچھے طالبانی سوچ ہو گی اور وہ ضرور جاہل زدہ ہو گا اور اگر وہی کام کسی یورپی ملک میں کر لیا جائے اور اسے مذہبی ٹرمز کے بجائے معاشرتی اور سائنسی زبان دے دی جائے تو ہم بے چوں و چراں قبول کر لیں گے کیوں کہ ہم سمجھتے ہیں کہ اصل استدلال صرف لبرل ازم اور سیکولر ازم کے پاس ہے۔ آپ کے سامنے زندہ مثالیں موجود ہیں جب اسلام کے نام پر، بد اخلاقی، بے حیائی اور اباحیت کے خلاف کوئی ریاست یا گروہ اسلام کے سنہری اصولوں کے مطابق حل تلاش کرتا ہے اور اس کے نفاذ کا سوچتا ہے تو شور اٹھتا ہے کہ یہ ریاست کا کام نہیں ہے یہ ادارے کا کام نہیں ہے لیکن ویسا ہی کام اگر سیکولر اور لبرل فرانس کے اندر ، ترکی اور تیونس کے اندر سیکورٹی مسائل کے خلاف(نظری اعتبار سے) ریاست اور ادارے حجاب پر پابندی لگاتے ہیں تو اسے ریاست کا حق تسلیم کیا جاتا ہے۔

اگر کوئی ادارہ پاکستان کے اندر معاشرتی مسائل کی بناء پر کوئی قد غن لگاتا ہے تو اس کے خلاف شور اٹھتا ہے حتیٰ کہ اسے اسلام کے خلاف سمجھا جاتا ہے لیکن ایک یورپی ملک (نام یاد نہیں، امید ہے دی نیوز ٹرائب پر آپ نے بھی پڑھا ہو گا ) میں مردوں میں بڑھتی ہوئی 'لسٹ' اور شہوانیت سے عورت کو محفوظ کرنے کے لیے عورتوں پر یہ پابندی لگائی جاتی ہے کہ وہ پبلک مقامات پر تنگ لباس پہن کر مت آئیں اور جب نکلیں تو مکمل لباس کے ساتھ باہر آئیں جو ضرور پنڈلیوں کو کور کرتا ہو ۔ سوال ہے کہ اس وقت یہ شخصی آزادی کہاں گم ہو گئی؟ ریاست لوگوں کے کپڑوں اور چلنے پھرنے پر کیوں چڑھ دوڑی؟ اور اس سے بڑا سوال کہ وہ سب لوگ کہاں گم ہو گئے جو اسلام کے معاملے میں ریاست کی حدیں مقرر کر رہے ہوتے ہیں۔

تعلیمی اداروں کے حوالے سے بھی سوچا جائے تو حیرت ہوتی ہے کہ شخصی آزادی  کو ڈسپلن کے قدموں میں اس وقت قتل کر دینا ضروری سمجھا جاتا ہے اور جو ادارہ اپنی جو بھی یونیفام مقرر کر دے اس پر عملدرآمد فرض ہوتا ہے  ورنہ آپ اس ادارے میں داخل ہونے کا حق نہیں رکھتے   لیکن اگر کوئی ادارہ اپنے ادارے کے تعلیمی وقار اور معاشرتی فلاح کے لیے کوئی اسلامی شق لاگو کرے تو اسے انسانی حقوق کے خلاف اور جبر کے رویے کے طور پر لیا جاتا ہے۔


دراصل ایک مخصوص "مائنڈ سیٹ' ہے جو افراد کو ذمہ داری سے بری کرتے ہوئے ریاست اور اداروں کو سونپتا ہے اور جب ریاست آگے بڑھتی ہے تو اس سے پکڑ کر فرد کی پاکٹ میں ڈال دیتا ہے۔ اگر زیادہ سے زیادہ آپ کچھ کر سکتے ہیں تو تبلیغی جماعت کا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ لیکن معاشرے کو بدلنے کا خواب چھوڑ دیں۔ حالانکہ "اسلامی ریاست" میں مولانا مودودیؒ نے ہی کہا ہے کہ انفرادی انقلاب ، سیاسی انقلاب کے بغیر ناپائیدار ہے۔ انفرادی طور پر آپ اس کو خیر کی دعوت دیتے رہیں دیتے رہیں اور اس کے نتیجے میں بغیر کسی جبر کے وہ داڑھی اور ٹوپی پر راضی ہو جائے لیکن اسے اس معاشرے میں چھوڑ دیں جہاں ریاست "اسلامک ائنوائرمینٹل کنڈیشنز" کو اپنی ذمہ داری ہی نا سمجھتی ہو ۔ وہ اس معاشرے میں 4 دن بھی اپنے پورے عمل کے ساتھ زندہ نہیں رہ سکتا۔ کھینچ تانی کا سلسلہ شروع ہو جائے گا اور ایمان مجھے روکے ہے جو کھینچے ہے مجھے کفر کی تکرار شروع ہو جائے گی -

اس صورت حال میں مولانا مودودیؒ، سید قطب شہیدؒ اور امام القرضاوی کی مختلف آراء سے ایک معقول چیز نکلتی ہے کہ ریاست کا ہرگز کام نہیں کہ کسی پر زبردستی پردہ چڑھا دے اور داڑھیاں نکال کھینچے لیکن ایک اسلامی ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ "اسلامک انوئرمینٹل کنڈیشنز" پیدا کرے تاکہ خیر معاشرے میں پروان چڑھے اور بدی کو گھٹن محسوس ہو۔ اور اس سلسلے میں کوئی قدغن لگانا ضروری سمجھے تو لگا دے -

پردہ انسان کا انفرادی معاملہ ہے لیکن ایک عورت کا یہ حق کیسے تسلیم کیا جا سکتا ہے کہ شہر کے لوگوں کو دیدار عام کرواتی پھرے اور مجموعی طور پر معاشرے میں جنسی انتشار پیدا کرے، اسے کونسا حق ہے کہ اپنی آزادی کی بنیاد پر لوگوں کی زندگی کو لاچار کرتی پھرے ۔ رہ سہہ کے اس کو آپ یہی جواز مہیا کر سکتے ہیں کہ جن کو خطرہ محسوس ہو وہ آنکھیں بند کر لے جیسے ٹماٹر مہنگے ہو جائیں تو ٹماٹر کھانا چھوڑ دے۔ پردے کو حوالے سے دو فوائد گنوائے جاتے ہیں ایک تو وہ اس عورت کو معاشرے کی بری نظروں سے محفوظ رکھتا ہے دوسرا معاشرے کو عورت کے حسن کے کرشمے سے محفوظ رکھتا ہے ۔ اب یہاں تک تو عورت کو آزادی ہے کہ چاہے تو اپنی فکر کرے یا نا کرے لیکن معاشرے کے حوالے سے یہ اسلامی ریاست اور اداروں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اسے محفوظ رکھیں۔



اس فکری اور عملی کشمکش کے باوجود میں سمجھتا ہوں کہ اس معاملے میں ریاست سے اختیار سلب کرنے کے بجائے ریاست کو بالغ نظری کے ساتھ تمام حق دینا چاہیے لیکن اس کے استعمال میں احتیاط برتنا ریاست کا کام ہو ۔جہاں انتشار پھیلنے کا خطرہ ہو، کسی فتنہ کے سر اٹھانے کی بو محسوس کی جا رہی ہو یا یہ اختیار بے سود اور بے فائدہ ہو وہاں حکمت کے تحت افراد پر چھوڑا جا سکتا ہے لیکن جہاں یہ بطور مسائل کے حل اور معاشرتی بھلائی کے ضروری ہو وہاں ریاست کو پورا پورا حق حاصل ہو کہ وہ اپنی رعایا پر کوئی قانون نافذ کر دے۔

4 تبصرہ:

محمد ریاض شاہد کہا...

اصل میں معاشرے کسقدر اسلامی ہے یا غیر اسلامیا اس کی مقیاس ہر انسان کی مختلف ہوتے ہے ، برقعے والی سمجھتی ہے کہ چادر لینے والی غیر اسلامی کام کر رہی ہے ، چادر والی سمجھتی ہے کہ دوپے والی غیر اسلامی ہے اور دوپٹے والی بغیر دوپٹے والی کو آزاد رو قرار دیتی ہے ۔ بغیر دوپٹے والی جینز والی کو اور جینز والی ٹائٹس پہننے والی کو بدمعاش سمجھتی ہے ۔ میرے خیال پاکستانی معاشری ظاہری لحاظ سے اسلامی ہی ہے ۔

جویریہ سید کہا...

عورت اور پردے والی مثال سے قطع نظر کہ ہر دو راے رکھنے والے گروہ نے اس کو بھی ایک مسلہ لا ینحل بنا دیا ہے... ہر ایک حکم اور روےیا کو متنازعہ بنا دینے کی کوشش، بات بہت اہم ہے. یہی تو چیز ہے جسے ہم دہرا معیار اور تانگ نظری کہا کرتے ہیں بزعم خود کو لبرل اور آزادی افکار و اظہر کا پرچار کرنے والوں کی طرف سے.! بہت خوب!!!!

منتظم کہا...

شرعی لحاظ سے اگرچہ پردہ کے مطلق دو رائے ہیں اور دونوں کو قبول کیا جا سکتا ہے۔ باقی سمجھنے سمجھانے کا مسئلہ اتنا اہہم نہیں اس بلاگ کا پس منظر یہ تھا کہ کیا ریاست کوئی قدغن لگانا چاہے تو لگا سکتی ہے یا نہیں؟ اور اسی کا جواب دینے کی کوشش کی ہے۔۔۔۔۔۔ اور پاکستانی معاشرے کو اسلامی کے بجائے ایک مسلمان معاشرہ کہا جاتا ہے

جویریہ سعید کہا...

آپ کی بات سے اتفاق کرتی ہوں. بھر حال بلاگ بہت خوب ہے.پردے سے متعلق کومنٹ اپ کے بلاگ پر نہیں بلکہ عمومی سوچ سے متعلق تھا.سیدھی بات ہے کہ وہی لوگ جو دوسرے ممالک میں ہر طرح کے قانون کو چاہے وہ ان کی اپنی معاشرت اور نقطہ نظر کے مطابق ہو یا نہ ہو بری خوشی سے "قانون کا احترم" کہ کر مانتے بھی ہیں اور عمل بھی کرتے ہیں.اور ان ریاست کو کسی بھی قسم کا قانون بنانے کا حق بھی دیتے ہیں، اسلامکے اس شعبے قانون سازی پر اعتراض بھی کرتے ہیں، اور حکم اور شق کو متنازعہ بنانے کی کوشش بھی کرتے ہیں.

ایک تبصرہ شائع کریں