ناکام کون؟

on 2013-05-21


اسلامی اسکالر- شاہ نواز فاروقی

جماعت اسلامی کو ایک بار پھر انتخابات میں کامیابی حاصل نہیں ہوسکی ہے۔ کامیابی کا معاملہ ایک انگریزی محاورے کے مطابق یہ ہے کہ کامیابی کی طرح کوئی کامیاب نہیں ہوتا‘ لیکن ناکامی کا قصہ بھی یہی ہے کہ اس کی طرح کوئی ناکام نہیں ہوتا۔ کامیابی آتی ہے تو غلطی بھی ہنر بن جاتی ہے… اور آدمی کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑتا ہے تو ہنر بھی عیب کہلانے لگتا ہے۔ یہ دنیا عجیب جگہ ہے، یہاں کامیاب بغاوت ’’انقلاب‘‘ کہلاتی ہے، اور ناکام انقلاب کو ’’بغاوت‘‘ کہا جاتا ہے۔ جماعت اسلامی کامیاب نہیں ہوتی ہے تو بعض لوگ کچھ اور نہیں تو یہی کہنے لگے کہ جماعت اسلامی کو کراچی میں انتخابات کا ’’بائیکاٹ‘‘ نہیں کرنا چاہیے تھا۔ لیکن حق و باطل کا معرکہ عجیب ہے۔
اس معرکے میں حق کی بالادستی کی جدوجہد کرنے والے کامیاب ہوں تو بھی کامیاب ہیں اور بظاہر ناکام ہوں تو بھی کامیاب۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حق و باطل کے معرکے میں اصل چیز حق کی شہادت دینا ہے۔ جس نے حق کی شہادت دی اس کے حصے میں سعادت آئی، اور جس نے باطل کے غلبے کے لیے کام کیا وہ کامیاب ہوکر بھی ناکام ہوا۔
انسان کی فطرت ہے کہ وہ جدوجہد کرتا ہے تو کامیابی کی صورت میں اس کے ’’نتائج‘‘ بھی دیکھنا چاہتا ہے۔ یہ خواہش غلط نہیں۔ یہ سرتاپا ایک انسانی رویہ ہے۔ لیکن اپنے کام کے اچھے نتائج دیکھنے کی خواہش کرنا اور نتائج کو پوجنا دو مختلف باتیں ہیں۔ انسان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اچھے نتیجے کی آرزو کرتے کرتے نتیجے کو پوجنے لگتا ہے۔ اسے محسوس ہوتا ہے کہ اصل چیز تو نتیجہ ہے۔ نتیجے کی پوجا کی طرف آدمی اس لیے جاتا ہے کہ دنیا میں کامیابی کا ’’سکہ‘‘ چلتا ہے۔ یہاں تک کہ کامیابی ہی ’’حق‘‘ بن جاتی ہے۔ اس غلط فہمی نے تاریخ میں بڑے ہولناک نتائج پیدا کیے ہیں۔ سرسید احمد خان برصغیر کے مسلمانوں کی بڑی شخصیات میں سے ایک ہیں۔ اکثر لوگوں کو معلوم نہیں کہ سرسید انگریز پرست اور ’’بابائے جدیدیت‘‘ کیوں تھے؟ تجزیہ کیا جائے تو اس کی بنیادی وجہ انگریزوں کا غلبہ تھا۔ سرسید کو لگتا تھا کہ انگریز حق پر نہ ہوتے تو غالب کیوں ہوتے!
سرسید کو محسوس ہوتا تھا کہ انگریزوں کا غلبہ ان کی ’’عقل پرستی‘‘ کا حاصل ہے اور عقل پرستی انہیں جدیدیت نے سکھائی ہے۔ چنانچہ انہوں نے اپنے فہم کے مطابق مسلمانوں کو بھی عقل پرست اور جدید بنانے کی کوشش کی۔ اس کوشش میں انہیں مذہب کے بعض تصورات رکاوٹ محسوس ہوئے تو انہوں نے بلاتکلف ان تصورات کو اٹھاکر ایک طرف رکھ دیا۔ مثلاً انہوں نے جنت اور دوزخ کا یکسر انکار تو نہ کیا، ایسا کرتے تو وہ منکرِ قرآن ہوجاتے، لیکن انہوں نے کہا کہ جنت اور دوزخ کا کوئی خارجی وجود نہیں ہے۔ جنت اور دوزخ انسان کی ذہنی کیفیات ہیں۔ اسی طرح انہیں گمان گزرا کہ فرشتوں کا تصور بھی خلاف ِعقل ہے۔ مگر وہ فرشتوں کے تصور کا یکسر انکار نہیں کرسکتے تھے، چنانچہ انہوں نے کہا کہ فرشتے دراصل انسان کی باطنی قوتیں ہیں۔ سرسید کی یہ، اور ایسی بہت سی گمراہ کن تعبیرات انگریزوں کے غلبے اور کامیابی سے متاثر ہونے کا نتیجہ تھیں، اور سرسید کو خیال آتا تھا کہ مسلمانوں کو بھی اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں ’’نتائج‘‘ پیدا کرکے دکھانے ہیں تو انہیں بھی اہلِ مغرب کی طرح سوچنا اور عمل کرنا ہوگا۔ لیکن ہمارے دین کی روایت میں ’’نتائج‘‘ کا معاملہ عجیب ہے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دل سے چاہتے تھے کہ اہلِ مکہ ایمان لے آئیں، لیکن ابتدائی برسوں میں آپؐ کو بہت کم کامیابی حاصل ہوئی تھی، جس کی وجہ سے آپؐ اکثر فکرمند رہتے۔ اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا کہ ہدایت دینا تمہارا کام نہیں ہے، ہدایت تو ہم ہی دیتے ہیں، تمہارا کام تو حق کو لوگوں تک پہنچا دینا ہے۔ اور بلاشبہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے گفتار اور کردار دونوں کی سطح پر بہترین انداز میں لوگوں تک حق کو پہنچایا۔ یہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اصل کامیابی تھی۔ حضرت نوح علیہ السلام ساڑھے نو سو سال تک تبلیغ کرتے رہے اور بالآخر سیلاب ان کی قوم کا مقدر بنا، تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت نوحؑ ناکام ہوگئے؟ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ حضرت نوح علیہ السلام کامیاب رہے ، البتہ ان کی قوم حق کو پہچاننے اور قبول کرنے میں ناکام ہوگئی۔ حضرت امام حسینؓ کا معاملہ تو بالکل ہی واضح ہے۔ وہ حق کی گواہی دیتے ہوئے نہ صرف یہ کہ خود شہید ہوگئے بلکہ ان کا تقریباً سارا خانوادہ ہی شہید ہوگیا۔ بظاہر دیکھا جائے تو حضرت امام حسینؓ ناکام ہوگئے، مگر حقیقت یہ ہے کہ ناکام تو یزید ہوا۔ حضرت امام حسینؓ کامیاب ہوئے اور ایسے کہ سید الشہداء قرار پائے۔
جماعت اسلامی کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ وہ 70 سال سے حق کی علَم بردار اور دین کے غلبے کی سب سے بڑی ترجمان ہے۔ جماعت اسلامی کی کامیابی یہ ہے کہ اس نے کبھی کسی کو فرقے اور مسلک کی دعوت نہیں دی۔ جماعت اسلامی کی کامیابی یہ ہے کہ اس نے کبھی کسی کو نسل، زبان، جغرافیے، ذات اور برادری کے تعصب کی جانب نہیں بلایا۔ فرد اور گروہ کامیاب ہوتے ہیں تو ان کے لیے اپنے تصور ِحق پر قائم رہنا آسان ہوتا ہے، مگر جماعت اسلامی پر اللہ تعالیٰ کا کرم ہے کہ اس نے پے در پے ناکامیوں کے باوجود بھی اپنے تصورِ حق کو نہیں چھوڑا۔ حالانکہ دنیا میں اس کی بہت سی مثالیں ہیں کہ مشکل حالات کا سامنا ہوتے ہی انسان اور گروہ نام اور کام کیا مذہب تک بدل لیتے ہیں۔ لیکن اللہ کے فضل و کرم سے جماعت اسلامی 70 سال پہلے جو بات کہتی تھی آج بھی وہی بات کہتی ہے۔ یہ کہنا آسان ہے، کرکے دکھانا دشوار ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم نہ ہو تو کوئی جماعت 40 سال کی انتخابی ناکامیوں کو جذب کرکے اپنے تصورِ حق پر ڈٹی نہیں رہ سکتی۔ ہم نے دیکھا ہے کہ کمیونسٹ پارٹیاں دنیا کی بہت بڑی پارٹیاں تھیں، مگر ریاست کی قوت سے محروم ہوتے ہی وہ کہیں یکسر غائب ہو گئیں، کہیں سکڑ سمٹ کر صفر بن گئیں اور معاشرے پر ان کا کوئی نظریاتی اثر باقی نہ رہا۔ اس کے معنی یہ نہیں کہ جماعت اسلامی پر انتخابی ناکامی کا کوئی اثر ہی نہیں ہوتا۔ جماعت اسلامی انسانوں کی جماعت ہے، وہ بھی ناکامی اور کامیابی سے متاثر ہوتی ہے، لیکن جماعت کے لوگ چند دن ناکامی کے اثر میں رہتے ہیں اور پھر معمول کی نظریاتی جدوجہد کی طرف لوٹ جاتے ہیں۔ غور کیا جائے تو یہ عمل تقریباً ایک معجزے کی طرح ہے۔
جماعت اسلامی نے اپنی سیاسی تاریخ میں تین بڑی انتخابی ناکامیاں دیکھی ہیں۔ پہلی ناکامی 1970ء کے انتخابات میں ہوئی۔ دوسری قاضی صاحب کے زمانے میں پاکستان اسلامی فرنٹ کی ناکامی تھی۔ اور تیسری ناکامی 2013ء کے انتخابات کی ناکامی ہے۔ ان ناکامیوں میں سب سے بڑی ناکامی 1970ء کے انتخابات کی ناکامی تھی۔ اس کی وجہ نشستوں کی تعداد نہیں، قیادت کا فرق ہے۔ مولانا مودودیؒ ان علماء میں سے تھے جن کو عہدساز کہا جاتا ہے۔ مولانا تقویٰ کا ہمالہ اور علم کا سمندر تھے، مگر ان کے دور اور ان کی قیادت میں جماعت اسلامی کو ناکامی ہوگئی۔ مگر یہ مولانا اور جماعت کی ناکامی نہیں تھی۔ یہ معاشرے کی ناکامی تھی۔ معاشرے نے حق کو پہچاننے اور قبول کرنے سے انکار کردیا۔ مولاناؒ کے تقویٰ اور علم کے فرق کے ساتھ یہی صورت حال قاضی صاحب کے زمانے میں تھی، اور یہی صورت حال سید منورحسن کے زمانے میں ہے۔ سن 2013 کے انتخابی نتائج کو دیکھا جائے تو اگر کراچی میں ایم کیو ایم دہشت کا کھیل نہ کھیلتی تو جماعت کی مجموعی انتخابی کارکردگی اور بہتر ہوسکتی تھی، لیکن وسیع تر نظریاتی منظرنامے میں یہ ایک معمولی بات ہے۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس طرح کی باتیں عام طور پر ناکامی کے بعد کی جاتی ہیں۔ اوّل تو تحریکِ اسلامی کے ہر کارکن کو حق کے ساتھ وابستگی کے معنی ہر حال میں یاد یا مستحضر ہونے چاہئیں، لیکن ناکامی کے بعد ان کو ذہن میں تازہ کرنا اس لیے ضروری ہوتا ہے کہ حق کی بالادستی کی جدوجہد کے ساتھ ہمارا تعلق متاثر نہ ہونے پائے۔ حق کے ساتھ ہمارا تعلق استوار رہے تو ناکامی بھی ہمارے لیے کامیابی ہے۔
بشکریہ: ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل

0 تبصرہ:

ایک تبصرہ شائع کریں