آؤ اجتہاد کریں!

on 2013-06-02

 اجتہاد اور تقلید  ہر دور اور ہر علاقے میں موضوع سخن رہا ہے۔ ناکام اور شکست خوردہ اقوام نئے راستوں اور طریقوں پر غور کرنے کے لیے اس مباحث میں ضرور پڑتی ہیں اسی لیے ہمارے یہاں آج کل اجتہاد کا بخار بہت سے لوگوں کو چڑھا ہوا ہے اور شاید اپنی ناکامی کا کلی ذمہ دار اپنے اس استتباط کو قرار دیتے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ساکن نظریات، زمانے کی تیز رفتاری کا مقابلہ نہیں کر سکتے اور ماضی کا حصہ بن جاتے ہیں لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس کا حق ہر ایرے غیرے کو نہیں کہ جب اس کا دل چاہے اٹھ کھڑا ہو اور اپنے من کی خواہش کو بجھا لے۔ وہیں یہ بھی ضروری نہیں وہ زمانے کے ساتھ چلنے کے لیے زمانے کی چال چلا جائے۔

میں اس ضمن میں ایک دلچسپ صورت حال کی طرف لیے چلتا ہوں۔ "پردہ" کا معاملہ اجتہاد کے حوالے کافی اچھالا جاتا ہے۔ ایک طبقہ یہ کہہ رہا ہے کہ اسلام کی ترقی میں ایک بڑی رکاوٹ یہ پردہ ہے اس سلسلے میں تھوڑی نرمی کر لی جائے نقاب کو اتار کر صرف سر کے ڈھاپنے پر ہی اکتفا کر لیا جائے تو اسلام دن دگنی رات چوگنی ترقی کرنے لگے اور چند سالوں میں اس دنیا پر چھا جائے وہیں یہ سوچ بھی پیدا ہو رہی ہے کہ اسلام نے یہ چادر عورت کو صرف ایک حکم کے طور پر ہی نہیں چڑھائی بلکہ وہ اسے زمانے کی بری نظروں سے اور ہوس سے بچانے کے لیے پردے کا حکم دیتا ہے۔ چونکہ اب زمانے میں ایسا ہیجان پہلے سے زیادہ اور بڑھ گیا ہے لہٰذا ضروری ہے کہ اس عمل میں مزید سخت ہوا جائے تاکہ جو مقصد ہے وہ پورا ہو سکے۔

اب ایک مسلمان جو اسلام کی ترقی بھی چاہتا ہے اور اسلام کے مقصد کو بھی پورا کرنا چاہتا ہے وہ کہاں جائے؟۔ کس اجتہادی سوچ کو برحق کہے اور کس کو نفس کی خواہش قرار دے؟۔ سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ اس سلسلے میں رہنمائی کرتے ہیں

بزرگان سلف کے اجتہادات نہ تو اٹل قانون قرار دئیے جا سکتے ہیں اور نا سب کے سب دریا برد کر دینے کے لائق ہیں۔ صحیح اور معتدل مسلک یہی ہے کہ ان میں ردوبدل کیا جا سکتا ہے مگر صرف بقدر ضرورت اور اس شرط کے ساتھ کہ جو رد و بدل بھی کیا جائے تو دلائل شرعیہ کی بناء پر کیا جائے۔ نیز نئی ضروریات کے لیے نیا اجتہاد کیا جا سکتا ہے مگر اس کے لیے شرط یہی ہے کہ اس اجتہاد کا ماخذ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ ہو اور یہ اجتہاد وہ لوگ کریں جو علم و بصیرت کے ساتھ اتباع و اطاعت بھی رکھتے ہوں۔ رہے وہ لوگ جو زمانہ جدید کے رجحانات سے مغلوب ہو کر دین میں تحریف کرنا چاہتے ہیں، تو ان کا حق اجتہاد کو تسلیم کرنے سے قطعی انکار ہی کیا جا سکتا ہے۔(رسائل مسائل (دوم)۔ صفحہ )186

اجتہاد میں اتباع و اطاعت کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے کیونکہ اس کا براہ راست تعلق مقصد سے ہوتا ہے  اور جب مقصد فوت ہو جائے تو ہم کس چیز اور خیال کی ترقی کا سوچتے ہیں؟ یہ وہ سوال ہے جو پھونک پھونک کر ۔ بڑھنے پر مجبور کرتا ہے۔ وہیں یہ بھی ضروری نہیں کہ علم و فکر اور مقصد و اطاعت کے ساتھ جو اجتہاد ۔
کیا جائے اس میں لازمی طور پر ایک ہی رائے سامنے آئے

نبی مہربانﷺ نےصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت کو کسی مہم پر روانہ کیا اور فرمایا کہ فلاں مقام پر جا کر نماز عصر ادا کرنا۔ کٹھن راستے کی وجہ سے نماز عصر کا وقت اس جگہ سے پہلے ہی آگیا سوال پیدا ہوا کہ کیا نماز ادا کر لی جائے یا اس مقام تک پہنچا جائے۔ کچھ اصحاب نے وہیں ادا کی اور کچھ نے اس مقام پر پہنچ کر۔ واپسی پر یہ مسئلہ آنحضرتﷺ کی خدمت میں پیش ہوا تاکہ برحق ہونے کا فیصلہ ہو سکے۔ نبی مہربانﷺ نے کسی کو غلط نہیں کہا بلکہ دونوں کی تصویب فرمائی اگرچہ جواز اور عدم جواز موجود تھا۔ لیکن دونوں مقصد و اطاعت اور منشائے شریعہ کے عین مطابق تھے لہٰذا اس اختلاف کونبی مہربانﷺ نے قبول فرمایا بلکہ رحمت قرار دیا

 آج بھی اگر ہم اسلام کی آفاقیت برقرار رکھنا چاہتے ہیں تو اجتہاد کے اصل شعور کو اجاگر کرنا ہو گا۔ سید مودودی ؒ کے مطابق ہر دور میں اجتہاد کے لیے ضروری ہے کہ آپ کے ایک ہاتھ میں تلوار ہو، دوسرے ہاتھ میں قرآن و سنت نبوی اور نظر اسلام (پورے مقصد کے ساتھ) کی نشاۃ ثانیہ پر ہو لیکن مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ ہمارے ہاتھ اور پاؤں مغربی تہذیب و فکر میں ڈوبے ہوئے ہیں ، ہماری نظر لبرل اور سیکولر لوگوں کی تنقید پر ہے اور ہم اسلام کی ترقی کے لیے اجتہاد پر زور دے رہے ہیں۔
۔  

1 تبصرہ:

MAniFani کہا...

ایک ایسے موضوع پر کی بورڈ دبایا ہے جس پر بات کرنے کی واقعتا ضرورت ہے، ۔

ایک تبصرہ شائع کریں