مودودیؒ، غامدی اور اہل مدارس

on 2016-03-16


بعض احباب، مودودیؒ اور جنابِ غامدی کے خلاف اہل مدارس کا ردعمل دیکھ کر دونوں کو ایک ہی پلڑے میں رکھ دیتے ہیں، اہل مدارس کا ایک مخالفانہ مزاج ہے کہ جس سے اختلاف پیدا ہوا اس کیخلاف فتوے تراشے، اس کے نام کے ہجوں پر تحقیق کر کے مقدمات تیار کیے اور کچھ کثر رہ گئی تو مخالف کی تحریروں سے چھوٹے چھوٹے فقرے نکال کر انہیں خلافِ شریعت اور خلاف اسلام ثابت کرنے کی کوشش کی- یہ مزاج برصغیرمیں باپ دادا کی وراثت کی طرح جاری و ساری ہے، ہمارے نوجوان طبقہ علماء کو بڑے ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچنا چاہیے کہ اس مزاج نے انہیں کیا دیا ہے اورکیا لیا ہے-
علم چاہے دنیا کا ہو یا دین کا، کسی کی میراث نہیں ہے، اور اللہ کا پیغام تو ہرانسان کے لیے عام ہے، وہ خود سمجھے، مختلف علمی سرمایے سے معاونت حاصل کرے یا براہ راست اہل مدارس سے رہنمائی لے، یہ انسان پر منحصر ہے، لہٰذا مدارس سے باہر بھی مسلمانوں میں کچھ ایسے لوگ اٹھ سکتے ہیں جو دین کو انہماک سے پڑھیں، سمجھیں اور دوسروں کو سمجھائیں، کیونکہ مسلمانوں کے علمی سلسلے کا زخیرہ مدارس میں موجود ہے وہ زبان بذبان اور سینہ بہ سینہ اگلی نسلوں تک منتقل بھی ہو رہا ہے، اگر وہ محسوس کرتے ہیں کہ کوئی آزاد مسلمان فہم میں کمی پیشی کا شکار ہے تو انہیں دلائل و برہان اور تقویٰ و خشیت الہیٰ کے ساتھ سمجھانا چاہیے-
یہیں وہ آزاد مسلمان جو مدارس کے بجائے اپنی کوششوں سے دین کو سمجھنے کی کوشش میں مصروف ہیں، انہیں بھی یہ احساس رکھنا ہوگا کہ روایت سے انحراف کا رویہ تحقیقی اور علمی رویہ نہیں ہے، آپ روایت کو دریا بُرد کر کے نئے سرے سے دین کی تشریح کا بیڑا اٹھانے کی کوشش نہیں کر سکتے اور کریں بھی گے تو وہ سواد اعظم میں قبول نہیں ہو سکے گی- تاریخ اسلام میں ایسے کئی نیک اور صالح شخصیات گزری ہیں جنہوں نے یہ کوشش کر کے دیکھ لی، آج ان میں سے چند ایک کے نام ہی باقی ہیں- اسلام نے جو زبان اور الفاظ چنے وہ اپنے وقت میں مروج تھے، یہی وجہ ہے قرآن مجید عرب کے بدوں کو بھی ویسے ہی سمجھ میں آیا جیسے پڑھے لکھوں کو آیا- وقت بدلتے بدلتے لفظ اپنے اصل مطالب کھو بیٹھتے ہیں یا بدل جاتے ہیں، وقت کے مفہوم تک پہنچے کے لیے ہمیں روایت کا ہی سہارا درکار ہوتا ہے، اس کا قطعاً مطلب نہیں کہ روایتی آراء سے باہر سوچا ہی نہیں جا سکتا اور اجتہاد کے دروازے بند دینا چاہیے، لیکن یہ سب کچھ اس سہارے کے بغیر آپ کو کہیں سے کہیں اٹھا کر پھینک سکتا ہے-
اس سارے پس منظر کے ساتھ ہم سب کو مودودیؒ اور جنابِ غامدی میں فرق قائم رکھنا چاہیے، مودودیؒ روایتی نہیں تھے جیسا کہ جنابِ غامدی بیان کرتے ہیں کہ وہ ابتدا میں مجتہدانہ فکر رکھتے تھے لیکن جلد ہی اہل مدارس کی مخالف سے روایتی عالم دین بن گئے اور نہ وہ اس قدر جدت پسندی کے قائل تھے جیسا کہ اہل مدارس کی غالب اکثریت انکے بارے رائے موجود ہے کہ انہوں نے دین کی نئی تشریح کر کے مودودیت کا فرقہ بنانے کی کوشش کی- مودودیؒ ان دونوں آراء کے درمیان ٹھہرتے ہیں، جہاں انہوں نے محسوس کیا کہ ایک پہلو میں دنیا بہت بدل چکی ہے، لوگوں کو الٹے پیر نہیں چلایا جا سکتا تو انہوں نے اجتہادی قوت استعمال کر کے مسلمانوں کو نیا راستہ دیا، اور جہاں محسوس کیا کہ روایت آراء کے ساتھ تعلق قابل فخر ہوسکتا ہے انہوں نے کھل کر اسے اپنی تحریر کا حصہ بنایا، وہ خود کہتے ہیں کہ 
"بزرگان سلف کے اجتہادات نہ تو اٹل قانون قرار دئیے جا سکتے ہیں اور نا سب کے سب دریا برد کر دینے کے لائق ہیں۔ صحیح اور معتدل مسلک یہی ہے کہ ان میں ردوبدل کیا جا سکتا ہے مگر صرف بقدر ضرورت اور اس شرط کے ساتھ کہ جو رد و بدل بھی کیا جائے تو دلائل شرعیہ کی بناء پر کیا جائے۔ نیز نئی ضروریات کے لیے نیا اجتہاد کیا جا سکتا ہے مگر اس کے لیے شرط یہی ہے کہ اس اجتہاد کا ماخذ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ ہو اور یہ اجتہاد وہ لوگ کریں جو علم و بصیرت کے ساتھ اتباع و اطاعت بھی رکھتے ہوں۔ رہے وہ لوگ جو زمانہ جدید کے رجحانات سے مغلوب ہو کر دین میں تحریف کرنا چاہتے ہیں، تو ان کا حق اجتہاد کو تسلیم کرنے سے قطعی انکار ہی کیا جا سکتا ہے۔رسائل مسائل (دوم)۔ صفحہ 186"
رہی بات مودودیؒ اور جنابِ غامدی کے تعلق کی تو وہ ہے استدلال کے استعمال کا، لیکن یہاں بھی دو مختلف راستے کے راہی بن جاتے ہیں- استدلال اگر علم کلام میں بولے تو مودودیؒ بنتا ہے اور اگر استدلال، فیصلہ ساز بن جائے تو جنابِ غامدی کی شکل اختیار کر لیتا ہے-

0 تبصرہ:

ایک تبصرہ شائع کریں