پاکستان میں سیکولرزم کا ہمہ وقتی بحران

on 2016-02-28

درآمد شدہ نظریات جب کسی اجنبی معاشرے میں آتے ہیں تو پہلا مسئلہ جو انہیں درپیش آتا ہے وہ اپنی پروڈکٹ کا نام اور خصائص کو مقامی زبان میں پیش کرنے کا ہے، ظاہر ہے ایک ایسا شہر جس میں سب گنجے آباد ہوں، اس کے بازار میں کنگھے کے نام سے کوئی چیز نہیں بک سکتی، چہ جائیکہ کنگھے کا نام بدل کر بال اگانے والا آلہ رکھ دیا جائے اور زور زور سے ہاکری کی جائے کہ روزانہ تین وقت اسے گنجے سروں پر پھیرا جائے تو آہستہ آہستہ بال اگنا شروع ہو جائیں گے، ایسی پروڈکٹ کیسے نہیں بکے گی، جب تک لوگ اس کو آزما کر دیکھ نہیں لیں گے اور دوسروں کو بتائیں گے نہیں تب تک گنجوں کے شہر میں ایسی دکانوں پر ایک عارضی رش لگ جائے گا، بعینہ اسی طرح کا معاملہ مغرب کی پروڈکٹ سیکولرزم کے ساتھ درپیش آتا ہے جب وہ مغربی معاشرے سے مسلمان معاشرے میں آتی ہے تو اسے اپنی اصطلاح اور مفہوم کا ایسا بحران گھیر لیتا ہے جو وقتی اور ہنگامی نہیں ہوتا ہے۔

ایک مسلمان معاشرے میں سیکولرزم اپنے اصل اصطلاح اور مفہوم کے ذریعے تواسلامی مارکیٹ کے تقاضے پورے کرنے سے رہی کیونکہ جب بھی اسلامی مارکیٹ میں 'دنیا' کے نام سے 'لااسلام' اور 'لادین' چیز بکنے کے لیے آئے گی ،گاہک اسے خریدنے کے بجائے کراہت اور نفرت کا اظہار کرنے لگیں گے، عجب نہیں کہ چند اس دکان کو بھی ڈھا دینے کا مطالبہ کرنے لگیں جو اسلام کو کاٹ کر کچھ بیچنا چاہتی ہو ،اس اسلام کو جو غارِ حرا سے اٹھ کر دنیا سے مخاطب ہوا تھا ۔لہٰذا مسلمان معاشروں کے سیکولر دانشوروں نے سوچا کہ اس پورے سیاسی فلسفے کا لیبل بدل کر ایسا معقول سا نام رکھ دیا جائے جسے سن کر مسلمان گاہک کم ازکم ان کی بات سننے اور خریدنے کی جانب مائل تو ہو سکے لیکن بدقسمتی سے اسکے علمبردار سیکولرزم کے لیےسوائے اس کے لفظی مطلب 'دنیا'کے اردو میں کوئی اصطلاح پیش کرنے میں آج تک ناکام رہے ہیں جونہ صرف اسکا متبادل ہو بلکہ اس کی اصل تعریف کی سرخی بھی بن سکے، محض 'دنیا' بنانے کی اس کوشش کے باوجود یہ فقط ' دنیا' نہیں ہے بلکہ 'دنیا' بنانے کے ایسے نظریات ہیں جس میں اسلام کی 'آخرت' بنانے کی قطعاً کوئی گنجائش نہ ہوـ عرب دنیا میں بھی سیکولرزم کو اسی بحران کا سامنا رہتاہے جہاں اس کے لیے ہمت کر کے کہیں عِلمانیہ اور کہیں علمانیہ کی اصطلاحیں پیش کی گئیں ۔عِلمانیہ کے معنی سائنس اور عِلم سے متعلقہ نظریات تھے اس لیے اس معنی و مفہوم کا اطلاق کسی صورت سیکولرزم پر نہیں کیا جا سکتا تھا ، علمانیہ اس کا درست لفظی مطلب تھا جو اردو میں دنیا سے متعلق یا دنیاوی کا ہم معنی ہے-

معنی و مفہوم کے اس ہمہ وقتی بحران کی بنیادی وجہ یہ تھی یورپ کے اندر ایسے دانشوروں کو ایک ایسا مذہب ملا جو اس دنیا سے ماوراء ایک عقیدہ رکھتا تھا اور انسان کی دنیاوی زندگی کے ارتقاء کا ازلی دشمن تھا ۔یہ دشمنی سیکولرزم سے پہلے وہ اسلام سے بھی برت چکا تھا جب مسلمانوں نے اسپین میں عیسائیوں کوعربی اعداد کی تعلیم دی تو عیسائیت نے اسے مذہبی جرم تصور کیا، اور مسلمانوں کی علمی ترقی کو فتوحات کے بعد کے سانحات میں شمار کیا گیا ۔لہذا عیسائی مذہب کی ماروائے دنیا نظریات کے ردعمل میں دنیا کا نظریہ پیش کیا گیا اور تعریف یہ کی گئی جو مذہب ہمیں نہیں کرنے دیتا وہ ہم کریں گے، مطلب ہم اپنی اجتماعی اور عملی زندگی کی ساری کاوشیں دنیاوی زندگی کی تعمیر و ترقی میں لگائیں اور مذہب ان تمام شعبوں سے خارج کر دیں گے، یہی منظرنامہ سیکولرزم کےبنیادی فلسفے میں کارفرما تھا اور اسی سے نکلے ہوئے معنی، مفہوم اور تشریح ہمیں مغرب کی ڈکشنریوں اور ان سائیکلوپیڈیاز میں ملتے ہیں۔

آکسفورڈ ڈکشنری میں سیکولر لفظ کی تعریف کچھ یوں کی گئی ہے:

1- دنیوی یا مادی یعنی دینی یا روحانی نہ ہو جیسے لادینی تربیت، لادینی فن یا موسیقی، لادینی اقتدار و حکومت جو کلیسا کی حکومت سے متضاد یا مخالف ہے۔

2- یہ رائے کہ دین (مذہب) کو اخلاق و تربیت کی بنیاد نہیں ہونا چاہیے۔

لوبسٹر کی ڈکشنری آف ماڈرن ورلڈ میں سیکولرزم کی تشریح کرتے ہوئے لکھا گیا ہے:

1- دنیوی روح یا دنیوی رجحانات وغیرہ بالخصوص اصول و عمل کا ایسا نظام جس میں ایمان اور عبادت کی ہر صورت کو رد کر دیا گیا ہو۔

2- یہ عقیدہ کہ مذہب اور کلیسائی احکامات کا امور مملکت اور تربیت عامہ میں کوئی دخل نہیں ہے۔

لوبسٹرز نیو ورلڈ ڈکشنری آف دی امریکن لینگویج میں سیکولرزم کا مطلب یہ لکھا گیا ہے

سیکولرزم عقائد اور اعمال کا ایسا نظام ہے جو دینی (مذہبی) عقیدے کی ہر صورت نفی کرتا ہو۔

اب ذرا انسائیکلوپیڈیاز میں سیکولرزم کی تشریحات ملاحظہ فرمائیں۔

انسائیکلوپیڈیا آف برٹانیکا لکھتا ہے:

سیکولرزم ایک ایسی اجتماعی تحریک کا نام ہے جس کا اصل ہدف لوگوں کی توجہ امور آخرت کے اہتمام سے ہٹا کر صرف دنیا کو ان کی توجہ کا مرکز بناتا تھا، کیونکہ قرون وسطیٰ میں لوگ دنیا سے کنارہ کشی کا شدید رجحان رکھتے تھے اور دنیا سے بے رغبت ہو کر خدا اور آخرت کی فکر میں منہمک رہتے تھے، اس رجحان کے بالمقابل انسانی جذبہ اور رجحان کے بروئے کار لانے کے لیے سیکولرزم وجود میں آیا اور دورِ نشاۃ ثانیہ میں لوگوں نے انسانی اور ثقافتی سرگرمیوں اور دنیا کے مرغوبات کے حصول میں زیادہ دلچسی کا اظہار شروع کر دیا- سیکولرزم کی جانب یہ پیش قدمی تاریخ جدید کے تمام عرصے میں دین ( مسیحیت) سے متضاد تحریک کی حیثیت میں آگے بڑھتی اور ارتقاء حاصل کرتی رہی۔

انسائیکلولوپیڈیا آف امریکانا سیکولرزم کی تشریح ان الفاظ میں کرتاہے:

سیکولرزم ایک ایسا اخلاقی نظام ہے جس کی بنیاد پند و نصائح کے اصولوں پر رکھی گئی ہو اور جو الہامی مذہب پر انحصار نہ رکھتا ہو، سیکولرزم تمام اہم سوالات مثلاً خدا کے وجود اور روح کے غیر فانی ہونے وغیرہ پر بحث و تمحیص کا حق دیتا ہے-

یہ سیکولرزم کے وہ مفہوم اور تشریحات ہیں جو نہ صرف مغرب کی مرتب کی گئیں ڈکشنریز اور لکھی گئے ہر انسائیکلوپیڈیا میں ملتی ہیں بلکہ اس حوالے سے لکھی گئی ہر چھوٹی بڑی کتاب میں اسی بنیاد پر نظریات اٹھائے گئے ہیں جس میں دین (مذہب) کی تعلیمات اور کسی بھی قسم کا کردار نہ ہو، اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ سیکولرزم ، لادینیت کا معنی و مفہوم رکھتا ہے۔ اسی لیے مسلمان معاشرے میں سیکولرزم ایک ہمہ وقتی بحرانی کیفیت سے دوچار ہو جاتا ہے سیکولرزم اس بحران پر قابو پانے سے قاصر ہے، یہی وجہ ہے مسلمان معاشروں میں سیکولرزم پر یقین رکھنے والے پیروکار ہمیشہ تعداد میں کم ہی رہے ہیں- ایک ایسا انسان جو اسلام کے ہوتے ہوئے سیکولرزم کو قبول کرنے کی ٹھان لیتا ہے تو گویا یہ معنی و مفہوم کا بحران ، ایک مسلمان کا دینی بحران بن جاتا ہے۔ یہ کیفیت اتنہائی کمزور اور نامطمئن ہوتی ہے کہ ایک انسان بیک وقت مسلمان بھی ہو اور نا مسلمان بھی، وہ اس کیفیت میں غیرارادی طور پر زیادہ دیر نہیں ٹھہر سکتا، وہ زیادہ عرصے تک مسلمان نہیں رہ سکتا ہے یا پھر زیادہ عرصے تک سیکولر نہیں رہ سکتا-

0 تبصرہ:

ایک تبصرہ شائع کریں