فکر مودودیؒ: ایک مباحثہ

on 2016-03-20

پہلا حصہ
بعض احباب، مودودیؒ اور جنابِ غامدی کے خلاف اہل مدارس کا ردعمل دیکھ کر دونوں کو ایک ہی پلڑے میں رکھ دیتے ہیں، اہل مدارس کا ایک مخالفانہ مزاج ہے کہ جس سے اختلاف پیدا ہوا اس کیخلاف فتوے تراشے، اس کے نام کے ہجوں پر تحقیق کر کے مقدمات تیار کیے اور کچھ کثر رہ گئی تو مخالف کی تحریروں سے چھوٹے چھوٹے فقرے نکال کر انہیں خلافِ شریعت اور خلاف اسلام ثابت کرنے کی کوشش کی- یہ مزاج برصغیرمیں باپ دادا کی وراثت کی طرح جاری و ساری ہے، ہمارے نوجوان طبقہ علماء کو بڑے ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچنا چاہیے کہ اس مزاج نے انہیں کیا دیا ہے اورکیا لیا ہے-
علم چاہے دنیا کا ہو یا دین کا، کسی کی میراث نہیں ہے، اور اللہ کا پیغام تو ہرانسان کے لیے عام ہے، وہ خود سمجھے، مختلف علمی سرمایے سے معاونت حاصل کرے یا براہ راست اہل مدارس سے رہنمائی لے، یہ انسان پر منحصر ہے، لہٰذا مدارس سے باہر بھی مسلمانوں میں کچھ ایسے لوگ اٹھ سکتے ہیں جو دین کو خلوص اور انہماک سے پڑھیں، سمجھیں اور دوسروں کو سمجھائیں، کیونکہ مسلمانوں کے علمی سلسلے کا زخیرہ مدارس میں موجود ہے وہ زبان بذبان اور سینہ بہ سینہ اگلی نسلوں تک منتقل بھی ہو رہا ہے، اگر وہ محسوس کرتے ہیں کہ کوئی آزاد مسلمان فہم میں حد درجہ کمی پیشی کا شکار ہے تو انہیں دلائل و برہان اور تقویٰ و خشیت الہیٰ کے ساتھ سمجھانا چاہیے-
یہیں وہ آزاد مسلمان جو مدارس کے بجائے اپنی کوششوں سے دین کو سمجھنے کی کوشش میں مصروف ہیں، انہیں بھی یہ احساس رکھنا ہوگا کہ روایت سے انحراف کا رویہ تحقیقی اور علمی رویہ نہیں ہے، آپ روایت کو دریا بُرد کر کے نئے سرے سے دین کی تشریح کا بیڑا اٹھانے کی کوشش نہیں کر سکتے اور کریں بھی گے تو وہ سواد اعظم میں قبول نہیں ہو سکے گی- تاریخ اسلام میں ایسے کئی نیک اور صالح شخصیات گزری ہیں جنہوں نے یہ کوشش کر کے دیکھ لی، آج ان میں سے چند ایک کے نام ہی باقی ہیں- اسلام نے جو زبان اور الفاظ چنے وہ اپنے وقت میں مروج تھے، یہی وجہ ہے قرآن مجید عرب کے بدوں کو بھی ویسے ہی سمجھ میں آیا جیسے پڑھے لکھوں کو آیا- وقت بدلتے بدلتے لفظ اپنے اصل مطالب کھو بیٹھتے ہیں یا بدل جاتے ہیں، وقت کے مفہوم تک پہنچے کے لیے ہمیں روایت کا ہی سہارا درکار ہوتا ہے، اس کا قطعاً مطلب نہیں کہ روایتی آراء سے باہر سوچا ہی نہیں جا سکتا اور اجتہاد کے دروازے بند دینا چاہیے، لیکن یہ سب کچھ اس سہارے کے بغیر آپ کو کہیں سے کہیں اٹھا کر پھینک سکتا ہے-
اس سارے پس منظر کے ساتھ ہم سب کو مودودیؒ اور جنابِ غامدی میں فرق قائم رکھنا چاہیے، مودودیؒ روایتی نہیں تھے جیسا کہ جنابِ غامدی بیان کرتے ہیں کہ وہ ابتدا میں مجتہدانہ فکر رکھتے تھے لیکن جلد ہی اہل مدارس کی مخالف سے روایتی عالم دین بن گئے اور نہ وہ اس قدر جدت پسندی کے قائل تھے جیسا کہ اہل مدارس کی غالب اکثریت انکے بارے رائے موجود ہے کہ انہوں نے دین کی نئی تشریح کر کے مودودیت کا فرقہ بنانے کی کوشش کی- مودودیؒ ان دونوں آراء کے درمیان ٹھہرتے ہیں، جہاں انہوں نے محسوس کیا کہ ایک پہلو میں دنیا بہت بدل چکی ہے، لوگوں کو الٹے پیر نہیں چلایا جا سکتا تو انہوں نے اجتہادی قوت استعمال کر کے مسلمانوں کو نیا راستہ دیا، اور جہاں محسوس کیا کہ روایت آراء کے ساتھ تعلق قابل فخر ہوسکتا ہے انہوں نے کھل کر اسے اپنی تحریر کا حصہ بنایا، وہ خود کہتے ہیں کہ 
"بزرگان سلف کے اجتہادات نہ تو اٹل قانون قرار دئیے جا سکتے ہیں اور نا سب کے سب دریا برد کر دینے کے لائق ہیں۔ صحیح اور معتدل مسلک یہی ہے کہ ان میں ردوبدل کیا جا سکتا ہے مگر صرف بقدر ضرورت اور اس شرط کے ساتھ کہ جو رد و بدل بھی کیا جائے تو دلائل شرعیہ کی بناء پر کیا جائے۔ نیز نئی ضروریات کے لیے نیا اجتہاد کیا جا سکتا ہے مگر اس کے لیے شرط یہی ہے کہ اس اجتہاد کا ماخذ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ ہو اور یہ اجتہاد وہ لوگ کریں جو علم و بصیرت کے ساتھ اتباع و اطاعت بھی رکھتے ہوں۔ رہے وہ لوگ جو زمانہ جدید کے رجحانات سے مغلوب ہو کر دین میں تحریف کرنا چاہتے ہیں، تو ان کا حق اجتہاد کو تسلیم کرنے سے قطعی انکار ہی کیا جا سکتا ہے۔رسائل مسائل (دوم)۔ صفحہ 186"
رہی بات مودودیؒ اور جنابِ غامدی کے تعلق کی تو وہ ہے استدلال کے استعمال کا، لیکن یہاں بھی دو مختلف راستے کے راہی بن جاتے ہیں- استدلال اگر علم کلام میں بولے تو مودودیؒ بنتا ہے اور اگر استدلال، فیصلہ ساز بن جائے تو جنابِ غامدی کی شکل اختیار کر لیتا ہے

دوسرا حصہ
مسلمانوں کی زندگیوں میں جس طرح امام غزالیؒ نے ایک نیا جادو بھر دیا تھا اور جس طرح امام شاہ ولی اللہؒ نے ایک سحر پھونک دیا تھا، اسی طرح دنیا بھر کے مسلمانوں کے سامنے امام سید مودودیؒ نے ایک نئی دنیا پیدا کر دی تھی، اسی لیے انہیں اسلامی علمی تاریخ کی عبقری شخصیت کہا جاتا ہے، مجھے کبھی کبھی بہت دکھ ہوتا ہے کہ ان کی علمی تحریک کو وہ تسلسل نصیب نہیں ہو سکا جو ہمارے ہاں باقی علمی شخصیات کے ضمن میں رواں ہے- اس بابت اگر ہمارے ہاں کسی دینی علمی تحریک کی مثال پیش کی جائے تو دیوبند کی روایتی علمی تحریک ہے جو ایک تسلسل کے ساتھ موجود ہے لیکن بدقسمتی سے یہ اس مزاج اور طرزاستدلال سے موافق نہیں جو سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ کے ہاں پایا جاتا ہے، البتہ سلسلہ فراہی ان کے مزاج سے موافق ہے، حمید الدین فراہیؒ بظاہر مولانا شبلیؒ کے شاگرد تھے لیکن انہوں نے دین کو ایک نئی تعبیردی، اگرچہ یہ تعبیر بڑی تعداد میں مسلمانوں کو اپنی جانب مائل نہیں کرسکی لیکن بہرحال اس میں ایک تسلسل برقرار رہا ہے، مولانا امین احسن اصلاحیؒ نے اس کو پکڑا، یہیں سید مودودیؒ منظرنامے پر ابھرتے ہیں، چونکہ آپ غیر معمولی شخصیت تھے، مزاج کی مناسبت سے مولانا امین احسن اصلاحیؒ، سید مودودیؒ کے ساتھ آ ملے، سترہ سالہ رفاقت کے بعد سلسلہ فراہی ایک مرتبہ پھرعلیحدہ ہوکر اپنی پٹڑی پر چل پڑا، لیکن اس کے تسلسل میں پاکستان کے اندر دوسری بڑی شخصیت جاوید احمد صاحب غامدی کو بھی ابتداء میں جماعت اسلامی کی آغوش حاصل رہی لیکن ظاہر ہے مزاج کا اتفاق، طرز استدلال کو پس پشت نہیں ڈال سکتا، نتیجتاً طرزاستدلال سے پیدا ہونے والے فروع میں فرق آنے پر یہ بھی جماعت اسلامی سے ٹوٹ گئے، جناب غامدی کے بعد ان کے شاگردوں کی تعداد درجنوں میں ہے اس بحث سے قطع نظر کہ ان کے اثرات پڑھی لکھی کمیونٹی پر کس قدر محدود رہے ہیں لیکن یہ زندہ علمی تحریک ہے جس کی وجوہات موضوع بحث نہیں- اصولی طور پر فکرِ مودودیؒ کے تسلسل میں غیر معمولی شخصیت کوئی میسر آئی تو وہ خرم جاہ مرادؒ کی تھی، ان کے علاوہ ان کی فکر سے تحریک لینے والی عظیم شخصیات کی تعداد برصغیر یا دنیا بھر میں ہزاروں میں ہے، کیونکہ سید مودودیؒ کا متن اردو زبان میں موجود ہے اس لیے یہ امید رکھی جانی چاہیے تھی کہ ان کا تسلسل قائم رہتا لیکن ایسا نہیں ہوا، ان کے اٹھنے کے بعد ان کے پیروؤں کو جن مسائل نے گھیرا، وہ اس میں الجھ کر رہ گئے، اور کچھ انہیں پکڑ کر آگے بڑھنے کی کوشش کرنے بھی لگے تو وہ ان کے الفاظ میں نئے مفاہیم تلاش کرنے سرگرم رہے
ویسے تو یہ بات سید مودودیؒ سے منسوب کی جاتی ہے کہ ان کی فکر کو تیسری نسل بہتر طریقے سے سمجھ پائے گی، یہ بات مبنی برحقیقت لگتی ہے جب ہم عالمی منظرنامے پر ہونے والی تبدیلیوں اور ان کی وجہ سے ہر ملک اور بالخصوص اسلامی ممالک پر پڑنے والے اثرات کا جائزہ لیتے ہیں، ان کے لٹریچر کے پس منظر میں ان کی فکر کی ضرورت پہلے سے زیادہ پیدا ہو رہی ہے- لہذا ضروری ہو گیا ہے کہ ایک بار پھر ان علمی ورثہ میں غوطہ زن ہوا جائے اور ان کے مزاج کی چاشنی اور طرز استدلال کی روشنی سے نئی دنیا کے تمام مسائل کو پڑھا اوراسلامی حل تجویز کیا جائے

تیسراحصہ
ویسے تو یہ دانشوری کا زمانہ ہے، ایک اینٹ اٹھاؤ، نیچے سے درجنوں اسکالرز نکلیں گے، لیکن پُراثر دانش وری تو ٹویٹر کا اکاؤنٹ ہے، جو اپنے زورِ الفاظ سے فیورٹ بھی لیتا ہے، ری ٹویٹ بھی پاتا ہے اور یہ کیفیت اس پر تسلسل کے ساتھ طاری رہے تو فالورز بھی چوکھے بنا لیتا ہے- دانشوری بھی اپنے مزاج اور طرزاستدلال کی قوت سے اپنی راہ بناتی ہے، نہ کہ روتی اور بلکتی ہے کہ مجھے اختیار فیصلہ عطاء کیا جائے- اس میں بھی بہت سی ایسی دانشوریاں بھی بڑا مقام حاصل کر لیتی ہیں جو حقیقاً فریب کا خول پہنے ہوئے ہوتی ہیں ، یہ زیادہ عرصہ نہیں چل پاتیں اور ایک دن خودبخود اس خول میں شگاف پڑتے نظر آنے لگتے ہیں-
جماعت اسلامی کے حوالے سے قحطِ الرجال کا ذکر چل رہا ہے اور تخصیص کے ساتھ اس کی وجوہات پر مسئلہ اٹکا ہوا ہے، بہت سے فاضل احباب یہ رائے رکھتے ہیں کہ جماعت اسلامی میں بطور تنظیم غور و فکر کرنے والوں کی گنجائش موجود نہیں ہے، قرین گمان ہے یہ بات صد فیصد درست ہو گی کیونکہ جماعت کی تنظیم بارے میری معلومات عموماً سطحی قسم کی ہیں- باوجود یہ چیز کسی پُرخلوص علمی شخصیت کی راہ کا اٹکاؤ نہیں ہے الا یہ کہ جماعت اسلامی کا فورم اس سے کھینچ لیا جائے- اس طرح کی مثالیں بھی ہمارے سامنے موجود ہیں، پہلی مثال جو مولانا مودودیؒ کی حیات میں دیکھی گئی وہ جنابِ غامدی کی ہے اور اس عہد میں جاوید اکبر انصاری کی مثال دی جا سکتی ہے- لیکن ان کی وجوہات بڑی جاندار اور دلچسپ ہیں، اور قحط الرجال کی ایک بڑی وجہ بھی-
ہمارے پاس مولانا مودودیؒ کا پورا لٹریچر موجود ہے، جب ہم مولانا کے مزاج کی بات کرتے ہیں، تو اس سے مراد ہوتا ہے کہ وہ عقل کو اپیل کرے گا، فکر کو جھنجھوڑے گا، عمل پر مائل کرے گا اور جب ہم ان کے طرزِ استدلال کی بات کرتے ہیں تو وہ ہے نیا اسلوب جس کی بنیاد میں استدلال کوٹ کوٹ کر بھرا ہے، وہ مرہم بھی ہے اور نشتر بھی ہے، وہ باغی بھی ہے اور محبت کا ہالا بھی ہے- ہم میں اکثر بشمول اس آنگن میں موجود میں حلقہِ دانشور ان کے بارے درست رائے قائم نہیں کر پاتا اور درست رائے باندھ بھی لے تو قائم نہیں رکھ پاتا- ہم میں بہت سے انہیں ایک مجتہد کی نظر سے دیکھتے ہیں اور بہت سے روایت کو استدلال کی طاقت فراہم کرنے والی شخصیت قرار دیتے ہیں- یہی کچھ جاوید احمد صاحب غامدی یا جاوید اکبر صاحب انصاری کے معاملے میں ہوتا ہے، 
جنابِ غامدی تو اپنے منہ سے کہتے ہیں کہ شروع کے ادوار میں مولانا مودودیؒ کا فکری لہجہ وہ نہیں تھا جو بعد میں بن گیا، وہ مجتہد سے روایتی بن گئے اور اس کی وجوہات بیان کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ مولانا علمائے کرام کی طرف سے ہونے والی تنقید پر بدل گئے- غامدی صاحب کی یہ خواہش تھی کہ مولانا کے قلم سے تسلسل کے ساتھ اجتہادی افکار ابھرتے رہتے جیسا کہ ان کے ہاں پیدا ہوتے رہتے ہیں، دوسری طرف جاوید اکبر انصاری صاحب مزاج تو وہی رکھتے لیکن مکمل طور پر روایتی ہیں، مجتہدانہ سوچ ان کو چھو کر بھی نہیں گزری، یہی وجہ کہ وہ مولانا کے کیے ہوئے اجتہادات کو بھی حرف غلط کی مٹا دینے کی بات کرتے ہیں، خاص کر سیاست کے ضمن میں وہ جمہوریت اور سیاست میں کئے جانے والے سمجھوتوں کے خلاف بولتے رہتے ہیں اور اس پر ایک کتابچہ بھی لکھا ہے-
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ، جیسا کہ مزاج اور طرز استدلال میں واضع ہے کہ نہ انہیں قطعیت کے ساتھ مجتہد قرار دیا جا سکتا ہے اور نہ قطعیت کے ساتھ روایتی مفکر کہا جا سکتا ہے، ان کا مسلک اعتدال کا ہے، نہ تو وہ غامدی ہیں اور نہ انصاری ہیں وہ صرف سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ ہیں- اور شاید جماعت اسلامی کا اسٹیج اسی کو چجتا ہے جو اس اعتدال کو قائم رکھتے ہوئے، مولانا مودودیؒ کے مزاج اور طرزِاستدلال کے مطابق نئے سوالات کے جواب تلاش کرتا ہے- پھر وہ کہیں مولانا سے آگے اجتہاد کرتا نظر آئے گا تو کہیں مولانا سے پیچھے روایت کو تھامتا دکھائی دے گا، اس حسنِ اعتدال کے ساتھ جماعت اسلامی کا فورم اس کے لیے ٹویٹر کا اکاؤنٹ ہے- میں یقین کے ساتھ کہتا ہوں اسے رونا اور بلکنا نہیں پڑے گا چاہے اسے جماعت قبول کر لے یا نہ کرے- لیکن تاحال فکرِ مودودیؒ کو وہ تسلسل نصیب نہیں ہو سکا جو ہمارے ہاں باقی علمی شخصیات کے ضمن میں رواں ہے

0 تبصرہ:

ایک تبصرہ شائع کریں