سانحہ مکہ اور دور جدید کے ابوجہل

on 2015-09-15



خانہ کعبہ میں ہونے والے حادثے پر دکھ کا اظہار ہی کیا جا سکتا ہے لیکن وہ مسلمان کہ جس کی خواہش ہو کہ اس کی پوری زندگی اپنے رب کی بندگی میں گزرے، جس کی دعاؤں میں ہو کہ مرتے دم بھی اس رب العالمین کے معبود ہونے کی شہادت دوں اور کلمہ طیبہ کا ورد کرتے ہوئے اس دنیا سے کوچ کروں اس مسلمان کے لیے یہ سعادت بہت بڑی ہے کہ وہ طواف کعبہ کرتے ہوئے اپنے رب کے حضور پیش ہو جائے، بندگی کی اس سے بڑی شہادت بھلا اور کیا ہو سکتی ہے کہ ایک مسلمان مرکز اسلام میں ایک عظیم عبادت میں مصروف ہو اور اچانک اس کی جان، جان آفریں کے سپرد ہو جائے- لیکن ظاہر ہے کہ کسی بھی تمنا اور خواہش کے لیےخودکشی نہیں کی جا سکتی۔


مرنے والے الفت میں جان دے گئے اور سعادت کی موت پا گئے لیکن دنیا کے چند ایسے لوگ کہ جن کے دل و دماغ میں ٹیڑھ واقع ہو چکا ہے، انہوں نے تمام فطری اصولوں کو پس پشت ڈالتے ہوئے، اس حادثے سے خدا کے وجود پر تشکیک پھیلانا شروع کردیا- بہت سے افراد نے انکے الٹے سیدھے سوالات کے جوابات دینے کی کوشش کی لیکن ان ٹیڑھے دماغوں میں دلیل کی سیدھی میخیں نہیں گاڑی جا سکتیں- لیکن عام مسلمانوں کو تشکیک سے دور رکھنا ہم تمام مسلمانوں کی ذمہ داری ہے۔


اگر ہوتا یوں کہ مکہ معظمہ میں تمام ابدی فطری قوانین شل کر دیے جاتے یا پھر کوئی کرین گرنے لگتی تو فرشتے دوڑ کر اسے سنبھال لیتے کہ ان کے نیچے خدا کے پرہیزگار بندے ایک عظیم عبادت میں مصروف ہیں، پھر اللہ رب العالمین یہ کلیہ عام کر دیتے کہ جو بھی رب کا بندہ بنے گا وہ اپنے ابدی قوانین توڑ کر اسے اپنے اکرام سے نوازے گا تو بھلا اس دنیا میں کون احمق کافر رہتا، جب اس کی بندگی میں واضح طور پر اس کی جانبداری اس دنیا میں ہی ملنا شروع جاتی تو یہ مادیت پرست ملحدین اور سیکولر لبرل جو آج تمسخر اڑا رہے ہیں، شاید اس کی عبادت میں پہلی صف میں کھڑے ہوتے- لیکن ایسا نہیں ہے، اگر ایسا ہوتا تو یہ کائنات سجانے کا جواز ہی ختم ہو جاتا، فرد کی آزادی ہی مقید ہو جاتی، آخرت کا تصور ہی گم ہو جاتا- اس لیے اس نے یہ جواز باقی رکھا، فرد کی آزادی کو قائم رکھا اور آخرت کے تصور کو مضبوطی بخشی، اس صلائے عام کے ساتھ کہ وہ اپنے بندوں کو پسند کرتا ہے، اسے غیر جانبدار نہ سمجھو، وہ تمہارے لیے دین اسلام کو پسند کرتا ہے اور صرف پسندیدگی کی نگاہ ہی نہیں رکھتا بلکہ وہ اپنے بندوں کی دعاؤں اور التجاؤں کو سنتا بھی ہے۔ پھر اس کی تائید و نصرت اور رحمت و نعمت اور اس کا اجر صرف اور صرف اس کے حکم پر چلنے والوں کے لیے ہے-

1 تبصرہ:

Bushra کہا...

ماشااللہ


بہت خوب فرمایا آپ نے. اللہ آپ کو جزائے خیر سے نوازے.


یہ بے دینی و سیکولر ذہنیت ہے جس کی طرف آپ نے نشاندہی کی ہے. ایسے لوگوں کی Approach اور تجزیہ ظاہری اسباب پر ہوتا ہے. کیونکہ جیسی تعلیم ہوگی ویسی سوچ ہوگی. اسی لیئے کہا گیا ہے کہ ہر ماں باپ پر فرض ہے کہ اپنی اولاد کو دین و اخلاق کی تعلیم دیں تاکہ وہ بڑے ہوکر دہریوں جیسی باتیں نہ کریں.


اللہ نیک ہدایت دے.


بشریٰ خان

ایک تبصرہ شائع کریں