عورت، سائنس اور اسلام

on 2015-07-19

اسلام کی بنیاد عدل پر ہے جبکہ جدید نظریات مساوات پر عورت کے حقوق کی بات کرتے ہیں- خود اس جدید انسان کی سائنس کہتی ہے کہ مرد اور خاتون میں کاپر اور زنک کے تناسب کا فرق ہے جس کی وجہ سے دونوں اصناف کی ساخت، بیالوجی اور فزیولوجی میں فرق ہے، یہ تو خود سائنس تسلیم کرتی ہے کہ عورت کمزور ہے، جلد خوفزدہ ہو جاتی ہے، مشکل حالات میں عدم توازن کا شکار ہو جاتی ہے- جب یہی بات اسلام کہے اور اس بنیاد پر عورت کو مرد کے برابر مگر مختلف حقوق دے تو ہمارے اپنے لوگ پریشان ہو جاتے ہیں، کچھ اس کوشش میں لگ جاتے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح اسلام کو بالکل جدیدیت کا عکس ثابت کر دیں پھر کسی غور و فکر کی ضرورت پڑے گی اور نہ تدبر سے اسلام سے مختلف رحجانات و نظریات کو چھانٹی کرنے کے مشکل عمل سے گزرنا پڑے گا، اس سے بڑھ کر عام مسلمانوں کو مشکل حالات میں استقامت اور قربانی سے بھی نہیں گزرنا پڑے گا اسکے برعکس وہ اس آزاد ذہن کو پکڑنے کی کوشش نہیں کرتے جو خود سائنس سے بھی راہ فرار اختیار کر رہی ہے اور مرد اور عورت کو مساویانہ حقوق دینے کی بات کرتی ہے- عدل کا تقاضا ہے کہ مرد اور عورت کو ان کی ساخت کے لحاظ سے حقوق دیئے جائیں اور اگر عورت فطری طور پر کمزور واقع ہوئی ہے تو اس کو تھوڑے زیادہ حقوق دئیے جائیں- اس پس منظر کو سامنے رکھ کر جب ہم خالق کی طرف سے دئیے گئے احکامات کا جائزہ لیں تو صاف نظر آئے گا کہ بنانے والا اپنی تخلیق کو بہتر حقوق دیتا ہے-


سائنسی دعویٰ کی وضاحت

یہ قطعہ تحریر پڑھتے ہوئے بہت سی خواتین کو مشکل ہو گی، لیکن اچھے اور بُرے سے بیگانہ یہ چند ایسے حقائق ہیں جنہیں تسلیم کرنا پڑے گا۔ ان میں سے چند تو ایسے ہیں جن کے لیے کسی سائنسی حوالے کی ضرورت نہیں 
جسمانی ساخت:ــــــ
عورت جسمانی طور پر چھوٹی، کم وزن اور کمزور عضلات کی مالک ہے اسی لیے یہ اللہ تعالیٰ کی پر کشش اور نازک تخلیق کہلائی جاتی ہے۔ دوسری طرف مرد سے نسبتا کم چوکس ہے شاید بہت سے لوگ ایسا خیال نہیں رکھتے لیکن کبھی خوف سے بھاگتے ہوئے یا لڑتے ہوئے مشاہدہ کرنے سے بخوبی پہچان سکتے ہیں۔ 
ہارمونز:ـــــــ
ماہواری کا عمل عورت کے انگ ڈھنگ پر بہت حد تک اثر انداز ہوتا ہے، خاص طور پر جوانی میں اس دوران مختلف دن، سوچنے اور محسوس کرنے میں عورت کے لیے مختلف ہوتے ہیں. سائنس اسے ہارمونل پرسیپشن پرابلمز کا نام دیتی ہے۔ مرد کو اس قسم کے ہارمونل احساسات سے نہیں گزرنا پڑتا۔
مرد کا غالب ہارمون ٹیسٹو سٹیران (testosterone) ہے جو نہ صرف اعتماد اور تحفظ کا احساس دیتا ہے بلکہ احساس برتری (superiority) کا مظہر بھی ہے۔ عورت کا غالب ہارمون ایسٹروجن (estrogen) ہے جو عورت میں کاپر کی مقدار بڑھا اور زنک کو گھٹا دیتا ہے جو نہ صرف اعتماد میں کمی باعث بنتا ہے بلکہ عدم فیصلہ سازی کا احساس دیتا ہے۔ اس کی میں مزید وضاحت کیے دیتا ہوں
حیاتیاتی کیمیا گری:ــــــ
عورت کے جسم میں مرد کی نسبت زیادہ کاپر جبکہ کم زنک موجود ہوتا ہے۔ کاپر جسم میں موجود حیاتیاتی مرکب امائنز کو تحرک دیتا ہے جس کے زیر اثر عورت کے جذبات (emotions) نہ صرف نمایاں ہوتے ہیں بلکہ بھڑکتے ہیں۔ مرد میں زنک کی مقدار زیادہ ہوتی ہے جو جذبات کو نہ صرف نرم رکھنے کو موجب بنتا ہے بلکہ عمل میں توازن پیدا کرتا ہے۔ 
عمومی طور پر خواتین میں عمل تکسید (oxidation) کی شرح مرد سے کم ہوتی ہے۔ عمل تکسید ایسا عمل ہے جس میں آکسیجن کیمیائی طور پر نامیاتی مرکبات سے ملتی ہے اور توانائی کی کافی مقدار حاصل ہوتی ہے۔اس وجہ سے کہا جاتا ہے کہ عورت مرد کی نسبت کم توانائی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ سہل انگار ہارمونل بہاؤ سے عورت ہمیشہ مشکلات میں مرد کی نسبت زیادہ خوف زردہ ہو جاتی ہے۔
یہ تصویر کا ایک رخ ہے دوسرے رخ میں عورت کو کئی لحاظ سے مرد پر برتری حاصل ہے لیکن حیرتناک طور پر ان عوامل کے تعلق عورت کی تخلیقی صلاحیتوں سے ہے۔ جیسے کہ عورت میں خون کے سرخ خلیات کی تعداد مرد سے زیادہ ہوتی ہے۔ بہرحال ان عوامل کی تفصیل میں نہیں جائیں گے

نوٹ: یہ سائنسی حوالہ اسلام کے حقوق کی کسوٹی یا معیارحق ہونے کی دلیل کے طور پر نہیں بلکہ ان حقوق میں چھپی حکمت کو سمجھنے کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

1 تبصرہ:

افتخار اجمل بھوپال کہا...

محترم ۔ ماشاء اللہ آپ نے سب حقائق مختصر اور قابلِ فہم طریقہ سے لکھے ہیں ۔ میں اب تک طالب علم ہوں ۔ زندگی میں اتالیق ۔ محقق ۔ عامل ۔ مفکر اور معمول سب رول ادا کئے ہیں اور اللہ کی کرم نوازی کہ درست ادا کئے ہیں ۔ میں اپنے مطالعہ اور تجربے کی بناء پر کہہ سکتا ہوں کہ جنہیں آپ کی تحریر کو سمجھ کر پڑھنا چاہیئے وہ عنوان یا چند سطور سے زیادہ نہیں پڑھیں گے ۔ ایک واقعہ 1956ء کا ہے میرے واقفِ کار ایک ڈاکٹر صاحب میو ہسپتال میں نائٹ ڈیوٹی پر تھے ۔ میں اُنہیں ملنے راولپنڈی سے گیا تھا سو ہسپتال چلا گیا ۔ اُسی دن عورتوں کے وارڈ میں ایک خاتون ڈاکٹر ڈیوٹی پر تھیں ۔ میں ڈاکٹر کے کمرہ میں انتظار میں تھا ۔ وہ دونوں بحث کرتے ہوئے کمرے میں داخل ہوئے موضوع آپ کی تحریر والا ہی تھا کیونکہ خاتون ڈاکٹر آزاد خیال تھیں ۔ خاتون داکٹر کی لمبی تقریر سُننے کے بعد ڈاکٹر نے کہا ”تھیوری کو چھوڑو ۔ عملی بات کرو ۔ اگر میری نیّت خراب ہو جائے اور میں تمہیں پکڑ لوں تو تم کیا کر لو گی؟“ محترمہ خاموش ہو گئیں اور کچھ نہ کہہ سکیں ۔ ڈاکٹر نے کہا “ جس نے عورت اور مرد کو پیدا کیا وہ ان کے متعلق زیادہ جانتا ہے یا تم جانتی ہو ؟ آپے سے باہر ہونے کی کوشش مت کرون ۔ ساری عمر پچھتاؤ گی”۔

ایک تبصرہ شائع کریں