سیاسی کچھڑی

on 2013-03-29

الیکشن کا علان ہوتے ہی سیاسی ہلچل مچ گئی ہے پرانے ڈیروں پر پھر سے بڑی بڑی چارپائیاں سجا کر رونقیں بحال اور شام کی بیٹھک بیٹھنا شروع ہو چکی ہے ، ہر امیدوار نے شادی غمی کا موقع چھوڑنا، گناہ کبیرہ سمجھ لیا ہے، کارنر میٹنگز روز کا معمول بن چکا ہے قصہ المختصر عوام کی موسم بہار شروع ہو چکی ہے دوسری طرف سیاسی جماعتوں کے درمیان اتحادوں اور سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے لیے رابطے تیز ہو گئے ہیں ساتھ ہی ساتھ سیاسی گھوڑوں کی رفتار میں بھی اضافہ دیکھنے میں نظر آ رہا ہے سر دست آج میں آپ کو پاکستان کی چند ایسی جماعتوں کی سیاسی گری کے مناظر دکھانا چاہوں گا جو آنے والے انتخابات میں اہم حصہ قرار دی جا رہی ہیں

مسلم لیگ ن: سیاسی طور پر منجھی ہوئی پارٹی کے لیے دو ہزار تیرہ کے انتخابات ایک بہت بڑا چیلینج بن چکے ہیں، ایک طرف عمران خان کی بتائی جانے والی سونامی سونامے کا رخ دھار رہی ہے تو دوسری طرف پس پردہ فوجی اسٹیبلشمنٹ کی مخالفت بھی کسی سے چھپی ہوئی نہیں ہے، بعض تجزیہ نگار تو اول الزکر بھی اسی کا شاخسانہ قرار دیتے ہیں، مسلم لیگ ن کی کوشش ہے کہ حسب معمول اس انتخابات میں بھی مذہبی ووٹ اپنے ہاتھ سے نہ جانے دیا جائے، اسی خیال پر وہ تمام پارٹیوں اور گروہوں سے اتحاد اور سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرنے کی کوششوں میں مصروف ہےاس لسٹ میں جمعیت اہلحدیث، اہلسنت والجماعت، سنی کونسل اور جماعت اسلامی کے علاوہ چند چھوٹے غیر سیاسی گروہ موجود ہیں لیکن اس لسٹ کی سب سے بڑی جماعت ، جماعت اسلامی سے معاملات کو نہایت اہمیت کی نظر سے دیکھا جا رہا ہے ، جماعت اسلامی ، مسلم لیگ ن کے لیے اس لیے بھی اہمیت رکھتی ہے کہ اگر اس کی ایڈجسٹمنٹ تحریک انصاف سے ہوتی ہے تو یہ دونوں جماعتیں مسلم لیگ ن کے لیے سردرد بن سکتی ہیں جس کے موثر علاج کے لیے، نواز شریف کو مولانا فضل الرحمن کی ضرورت محسوس ہو گی ، لیکن جماعت اسلامی اس بار چار پانچ سیٹوں پر راضی نہیں ہے ، وہ صرف لاہور کی ساتھ ساتھ پورے بنجاب سے اپنا حق مانگ رہی ہے اور تا حال مذاکرات چل رہے ہیں ہے

تحریک انصاف: جاوید ہاشمی اور شاہ محمود قریشی کی موجودگی کے باوجود تحریک انصاف ایک نئی پارٹی ہے جو باقاعدہ طور پر اپنے موجودہ سیٹ اپ کے ساتھ پہلی بار میدان میں اتر رہی ہے لیکن اس سے پہلے عمران خان کو جنرل پرویز مشرف کی طرف سے سابقہ انتخانات میں ایک سیٹ مل چکی ہے ۔ آنے والے انتخابات میں روز اول سے عمران خان سیاسی جماعتوں سے اتحاد یا سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی مخالفت کرتے آئے ہیں اور مسلم لیگ ن کے معاملے میں تو وہ خاصہ شدت پسندانہ رویہ اختیار کر لیتے ہیں لیکن عمران خان نے ہمیشہ جماعت اسلامی کو اتحاد اور سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے لیے موزوں سمجھا ہے حال ہی میں سید منور حسن اور عمران خان کے درمیان سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے حوالے سے ملاقات ہوئی اور ایک کمیٹی تشکیل دی گئی لیکن تحریک انصاف اس نیوز کانفرنس کے بعد دو واضع حصوں میں بٹ چکی ہے ایک دھڑا عمران خان کی قیادت میں جماعت اسلامی سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا خواہاں ہے اور اس دھڑے میں جاوید ہاشمی اور اعجاز چوہدری جیسے رہنما موجود ہیں دوسرا دھڑا شاہ محمودقریشی کی قیادت میں اس فیصلے کے خلاف چل رہا ہے اس میں عمران اسماعیل، شیریں مزاری بھی شامل ہیں، شاہ محمود قریشی نے اس سلسلے میں اپنی سرگرمیاں تیز کر دی ہیں اس ضمن میں مخالف دھڑے کو ٹف ٹائم دینے کے لیے ایسی سیٹوں پر امیدواران کا علان کر دیا گیا ہے جہاں پر جماعت اسلامی کے مرکزی رہنما کھڑے ہوتے ہیں جن میں لیاقت بلوچ، نعمت اللہ خان، میاں محمد اسلم، شبیر احمد خان اور ڈاکٹر وسیم اختر شامل ہیں - اپنی ٹاپ ون سیٹس پر تحریک انصاف کے آ جانے کے بعد جماعت اسلامی کے حلقوں میں شدید غصہ پایا جا رہا ہے، اگر عمران خان نے سمجھداری کا مظاہرہ نہ کیا تو وہ اکیلے رہ سکتے ہیں جس کا فائدہ براہ راست پی پی پی اور مسلم لیگ ن کو ہو گا-

جماعت اسلامی : مسلم لیگ ن یا تحریک انصاف کے لیے جماعت اسلامی کلید فتح کی حیثیت رکھتی ہے ، لیکن جماعت اسلامی ، سید منور حسن کی قیادت میں نہایت سمجھداری کے ساتھ کھیلنا چاہ رہی ہے اسی لیے اس نے تمام جماعتوں سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے لیے آپشن کھلے رکھے ہوئے ہیں، ہر پارٹی کے ساتھ ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جو اپنی رپورٹس جمع کروائے گی اور ان رپورٹس سے کوئی نتجہ اخذ کیا جائے گا۔ مسلم لیگ ن ان کو ماضی کی طرح چند سیٹیں نواز کر حمایت لینا چاہتی ہے لیکن جماعت اسلامی شائد اس بار ایسا نہیں کر نا چاہتی، تحریک انصاف نے ایک طرف کمیٹی اور دوسری طرف امیدواران کو جماعت اسلامی کے اہم حلقوں سے سامنے لا کر اسے بد ظن کر رہی ہے۔ قاضی حسین احمد اور سید منور حسن کی عمران خان سے محبت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے لیکن اس محبت کا صلہ جماعت اسلامی وصول کرتے نظر نہیں آ رہی۔ اگر مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف ، اس سے ایڈجسٹمنٹ کرنے میں ناکام ہوتے ہیں تو جماعت اسلامی کو مجموعی ناکامی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ، لیکن کے پی کے میں کسی بھی پارٹی سے اتحاد کر کے حکومت بنانےکی صلاحیت پیدا کر چکی ہے۔

پی پی پی : آصف علی زرداری کی ظاہری قیادت میں پیپلز پارٹی، اس انتخابات میں اپنے اتحادیوں کے ساتھ ہی انتخابات میں اترے گی، کے پی کے میں عوامی نیشنل پارٹی اور سندھ میں ایم کیو ایم کے ساتھ اتحاد کرے گی جبکہ بلوچستان میں جمعیت علمائے اسلام ف سے اتحاد کو بھی خارج از امکان نہیں قرار دیا جا سکتا-

0 تبصرہ:

ایک تبصرہ شائع کریں