پاکستانی قوم پر ایک قرض!

on 2013-03-29

میں لکھنا نہیں چاہتا تھا ، مجھے معلوم ہے کہ میرے عزیزوں میں کسی کا دل دکھے گا اور کسی کا جگر تڑپے گالیکن کیا کروں کچھ موضوع بہت ضدی ہوتے ہیں لوگوں کے احساسات سے لاپرواہ ، ہوا کی روش کے الٹ اور نتائج سے بے نیاز – میرے مہربان کبھی کبھی اس بے رنگ سے موضوع پر جاذب نظر سبز رنگ پینٹ کر کے     دکھاتے تھے اور کہتے تھے کتنا پیارا لگ رہا ہے اور میں چند لفظوں کا تبادلہ کر کے رک سا جاتا
جی ہاں میرا موضوع وہ امید ہے جسے سونامی کا نام دے کر ڈرانے کا کام لیا جاتا ہے اس نے پاکستان کے بچے بچے کے آنگن میں امید کا چراغ روشن کر کے خوش نما مستقبل کےسبز باغ دکھاۓ نوجوان اس کی زد میں آ ئے کہ ایم اے پاس دماغ بھی کچھ کام نہ آ ئے اور اس آس نے یوں دلوں میں جڑ پکڑی کہ بینزی بیٹر (ایسا اسپرے جس سےغیر ضروری جڑی بوٹیوں کا صفایا کیا جاتا ہے ) کا اسپرے بھی کر لو تو پھلنے پھولنے لگے لیکن ابھی چند ماہ ہی گزرے کہ دھند چھٹنے لگی اور مطلع صاف ہو رہا ہے نظر آرہا ہے کہ جس نے پاکستان کے سیاسی گند کو صاف کرنے کا نعرہ لگایا تھا اس نے مزید اس کو پراگندہ کر دیا ہے
آج اس امید کا حال اس پودے کا سا ہے کہ جسے آپ روزانہ خون پسینہ دیتے ہوں ، اپنے آئیڈیاز کی کھاد دیتے ہوں اور جسے صبح شام دشمن نما مخالفوں کی تپش سے بچاتے ہوں صرف اور صرف اس یقین پر کہ بڑا ہوگا تو میٹھے اور لذیز پھل دے گا لیکن ہوا کچھ یوں کہ جوں جوں یہ پودا بڑھنے لگا پھلوں کے پھول کی کونپلوں کے بجاۓ نوک دار کانٹوں کے مسام نظر آنے لگے سوچئے اس وقت ایک بے لوث کارکن کی صورت حال کسی ہپاٹائٹس کے مریض جیسی ہوتی ہے جسے اچانک پتا چلا ہو کہ اسے یہ مرض لاحق ہو چکا ہے پھر یاد آتا ہے کہ ایک نادان سی سوچ دل و دماغ پر دھند کی طرح چھا جاۓ تو ہم کس حد تک بہہ جاتے ہیں اور کھلی آنکھوں کے آگے بھی اندھیرا سا ہو جاتا ہے  ، بس مجھے یہ بتا دیجئے کہ اقتدار کا لالچ اس قدر منہ زور کیوں ہوتا ہے کہ اچھے اور برے کا فرق مٹ جاتا ہے اور لیڈروں کو اپنے قول و عمل کی سیاہی بھی نظر آنا بند ہو جاتی ہے ، دوستوں ذرا سوچو کیا ایسی امیدوں اور لیڈروں کو ، چوروں اور لٹیروں کو، جاگیرداروں اور وڈیروں کو ، گیلانیوں اور زرداریوں کو ،  حاجیوںاورشریفوں کو ، بھتہ خور دہشت گردوں اور فطرانہ خوروں کو، لبرز اور روشن خیالوں کو گھر میں پڑے مرے ہوۓ چوہے سے زیادہ اہمیت دینا چاہے ؟ جسے آپ فوراّ اٹھا کے باہر پھینک آتے ہیں
چلیں کہ سوچوں کو بدل ڈالیں”سب چور ہیں ” کو دماغ سے نکال دیں کیوں کہ اللہ کی زمین کبھی بھی نیک اور صالح لوگوں سے بانجھ نہیں رہی ، ہر دور میں موسیٰ اور فرعون موجود رہے ہیں بس ہماری آنکھیں ہیں کہ دیکھ نہیں پاتی ورنہ مکہ کا وہ عظیم شخص جس پر میرے اور آپ کے ماں باپ قربان، امانت اور سچائی میں پورے عرب میں مشہور و ممتاز، اپنے پیروکاروں کی گنتی ایک دو سے شروع نہ کرتا- آئیے پاکستانی سیاست کے نیک اور پاکیزہ صفت لوگوں کو تلاش کرنے نکلتے ہیں جن پر ایمانداری رشک کرتی ہو، پچھلے دنوں سوشل میڈیا پر ایک سابق صوبائی وزیر کی سچی کہانی پڑھی تو دل تڑپ اٹھا کہ ایسی چنگاری بھی یا رب اپنی خاکستر میں تھی اور ہم دن میں  بیسیوں بار کہتے ہیں کہ پاکستانی سیاست گند کا ملغوبہ ہے  لیکن وہ محب وطن صوبائی وزیر جس کا نام اس پر نہیں لکھا تھا جرمنی کے دورہ پر جاتا ہے سیکرٹری لیول کا عہدیدار ہمراہ ہے جاتے ہی اپنے زمانہ طالب علمی کے ایک دوست کو کال کی  اور اسی کی وساطت سے ایک مقامی مسجد میں پڑاؤ ڈال لیا، سارا دن سرکاری مصروفیات چلتی رہتیں اور رات مسجد میں گزرتی یوں محض پانچ سو یورو میں یہ دورہ مکمل ہو گیا لیکن اس قوم پر ایک بھاری  قرض چڑھا گئے کہ ان اور ان جیسوں کو شائد اس عمل سے پہچان لے ، کیا ہم ان کو پہچان سکتے ہیں؟ اور یہ قرض اتار سکتے ہیں؟ جب تک یہ قرض نہیں اترے گا یہ پاکستان بحرانوں میں گھرا رہے گا۔ 
   Contact: www.facebook.com/SaijdQalam      

0 تبصرہ:

ایک تبصرہ شائع کریں