سوانح حیات عبد القادر مولا شہیدؒ

on 2013-12-15

اپنی سماجی سرگرمیوں کی وجہ سے مقبول، عبد القادر مولا ؒ بنگلہ دیش کے ایک بہترین لیڈر تھے۔ گرفتاری سے قبل وہ بطور اسسٹنٹ سیکرٹری جنر ل جماعت اسلامی بنگلہ دیش اپنی ذمہ داریاں نبھا رہے تھے۔ عبد القادر مولا ؒ 1948ء میں فرید پور ضلع کے گاؤں جوریپردوگی کے ایک مذہبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے اپنی تعلیم کا آغاز جوریپردوگی کے گورنمنٹ پرائمری اسکول سے کیا۔آپ ایک ذہین اور قابل طالب علم کے طور مشہور تھے انہوں نے پرائمری(1959ء) اور سیکنڈری (1961ء) دونوں میں وظائف حاصل کیے۔ 1964 ء میں امیر آباد فضل الحق انسٹیٹیوٹ سے ثانوی تعلیم اول درجے کے اعزاز کے ساتھ پاس کی۔
 
1966ء میں راجنڈرا کالج فرید پور سے اعلیٰ ثانوی تعلیم حاصل کی اور اسی کالج سے 1968ء میں بی ایس سی کا امتحان پاس کیا۔معاشی مسائل کی وجہ سے وہ تعلیم سلسلے کو جاری نہ رکھ سکے اور کالج میں بطور استاد کے ملازمت اختیار کر لی۔ 1970ء میں دوبارہ انہوں نے فزکس ڈیپارٹمنٹ میں داخلہ لے لیا۔ وہ ایم ایس سی فزکس کے فائنل پرچے 1971ء کی جنگ کی وجہ سے نہ دے سکے۔
 
1975ء میں انہوں نے اس وقت تمام سابقہ ریکارڈز توڑ ڈالے جب اعلیٰ درجے کے ساتھ سوشل اسٹڈیز کا امتحان پاس کیا، اِسی مضمون میں انہوں نے 1977ء میں ماسٹر ڈگری حاصل کی۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ پارٹ ٹائم میں اُدیان سیکنڈری اسکول میں پڑھاتے بھی رہے جو ڈھاکہ یونیورسٹی کے اندر قائم کیا گیا تھا۔
ایم ایڈ کی پیلی کیشن مکمل ہونے کے بعد وہ بنگلہ دیش رایفلز پبلک اسکول میں بطور سینئر استاد بھرتی ہو گئے۔ بعد میں اس اسکول سے بطور پرنسپل ریٹائر ہو گئے۔اس کے بعد وہ بنگلہ دیش اسلامک فاؤنڈیش میں بطور کلچرل آفیسر کے براجمان ہوئے۔ 1978ء میں آپ بطور ریسرچ اسکالر ، بنگلہ دیش اسلامک سنٹر سے منسلک ہو گئے۔ 1979ء تک وہ منارات انٹرنیشنل اسکولز اینڈ کالجز کے بانی سیکرٹری بھی رہے۔ 1981ء میں عبد القادر مولا نے ویٹرن نیوز پیپر اور روزنامہ سنگرم سے بطور ایگزیکٹو ایڈیٹر اپنے صحافتی کیرئر کا آغاز کیا۔
 
عبد القادر مولا ؒ اپنے خوبصورت سیاسی کیرئر کی وجہ سے بھی خا صے جانے پہچانے جاتے تھے ۔ جب وہ آٹھویں جماعت کے طالب علم تھے تو کیمونزم سے خاصے متاثر تھے جس کے نتیجے میں انہوں نے کیمونسٹ پارٹی بنگلہ دیش کے طلبہ ونگ چھاترا یونین میں شمولیت اختیار کر لی۔ 1966ء تک وہ چھاترا یونین کے ساتھ منسلک رہے۔ ثانوی تعلیم کے امتحانات کے بعد ان کا تعارف شہرہ آفاق تفسیر تفہیم القرآن سے ہوا جو سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ کے نوک قلم سے لکھی گئی ۔ جیسے جیسے وہ تفہیم القرآن کا مطالعہ کرتے گئے ویسے ویسے ان کے اندر حیرت ناک تبدیلیاں واقع ہوتی گئیں۔ یہیں سے وہ سید مودودیؒ کے لٹریچر کی طرف مڑ گئے اور اسلام کو اپنی زندگی کا اہم ترین حصہ سمجھنے لگے۔ اسی کے نتیجے میں وہ اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کے مشرقی ونگ "اسلامی چھاترا شنگو" کے ساتھ باقاعدہ منسلک ہو گئے 1966ء میں انہیں "شودوسشو(رکن)" بنا لیا گیا انہوں نے مختلف سطح پر تنظیم کی خدمت کی۔ آپ ڈھاکہ یونیورسٹی کے شاہد اللہ ہال یونٹ کے ناظم رہے اور اس کے بعد ڈھاکہ یونیورسٹی میں بطور ناظم جامعہ کی ذمہ داریاں بھی نبھائیں۔ آپ ڈھاکہ شہر کے معتمد بھی رہے اور اسی دوران مرکزی مجلس شوریٰ کے رکن بھی منتخب ہوئے۔
 
1977ء میں تعلیمی زندگی ختم ہونے کے بعد آپ نے تحریک اسلامی کے وسیع مقاصد کے لیے جماعت اسلامی میں شمولیت اختیار کر لی۔نومبر 1978ء میں آپ نے رکن جماعت اسلامی بنگلہ دیش کا حلف اٹھایا کچھ عرصہ بعد انہیں امیر جماعت اسلامی بنگلہ دیش پروفیسر غلام اعظم کے پرسنل سیکرٹری کی ذمہ داری دے دی گئی۔ آپ ڈھاکہ شہر کی مجلس شوریٰ او مجلس عاملہ کے ممبر بھی منتخب ہوئے جس کے بعد وہ نائب امیر جماعت اسلامی ڈھاکہ کی ذمہ داریوں پر بھی فائز رہے۔
1985ء میں آپ ڈھاکہ کے امیر اور مرکزی مجلس شوریٰ کے رکن منتخب ہوئے۔ 1991ء میں آپ کو مرکزی شعبہ ابلاغ ، جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے سیکرٹری کی ذمہ داریاں دی گئیں۔ 2000ء میں انہیں اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی بنگلہ دیش بنا دیا گیا۔ اس کے ساتھ وہ عوامی لیگ کی غیر ذمہ دارانہ اور جھوٹی سیاست کو بے نقاب کرنے کے لیے چار جماعتی کمیٹی کے ایک اہم ممبر بھی تھے۔
 
آپ کی سماجی سرگرمیاں بھی کسی سے ٹھکی چھپی نہیں تھیں انہیں دو بار (1982ء اور 1983) ڈھاکہ یونین آف جرنلسٹس کے صدر منتخب ہونے کا اعزار حاصل رہا آپ کئی سوشل اور ایجوکیشنل اداروں کے ساتھ بھی منسلک رہے جن میں شاہ فیصل انسٹیٹیوٹ، اسلامک فاؤنڈیشن سوسائٹی اور اس کی اسکولز منیجمنٹ کمیٹی، سردار پور مدرسہ و یتیم خانہ، خادم الاسلام مدرسہ فرید پور و یتیم خانہ اور سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ اکیڈمی شامل ہیں۔ آپ منارات انٹرنیشنل اسکولز اینڈ کالجز کے بانی سیکرٹری بھی رہے۔
 
عبد القادر مولاؒ ایک اچھے لکھاری بھی تھے انہیں نے مختلف قومی اور عالمی موضوعات پر مختلف اخبارات میں لکھا۔ وہ کئی اسلامی مسائل پر ایک مستند مصنف سمجھے جاتے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے کئی ممالک کا دورہ بھی کیا جن میں ان کی محبت پاکستان تو تھا ہی ، سعودی عربیہ، عرب امارات، جاپان ، سنگا پور اور انڈیا بھی شامل تھے۔
آپ 8 اکتوبر 1977ء سنور جہاں کے ساتھ حلقہ اذواج میں شامل ہوئے۔ ان کی اولاد میں دو بیٹے اور چار بیٹیاں ہیں جو تمام کے تمام تحریک اسلامی کے ساتھ وابستہ ہیں اور مختلف تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ ان کی اہلیہ سنو رجہاں رکن جماعت اسلامی بنگلہ دیش ہیں۔
 
عبد القادر مولاؒ اپنی زندگی میں پانچ بار جیل گئے اور پانچویں بار سیدھے راہ عدم کو سدھار گئے۔ پہلی بار انہیں 1964ء میں ایوب خان کے خلاف تحریک چلانے کی پاداش میں گرفتار کر لیے گئے۔ 1972ء میں دوسری بار بغیر کسی وجہ کے انہیں گرفتار کر لیا گیا تاہم عوامی ردعمل پر جلد ہی انہیں رہا کر دیا گیا۔ ارشاد دورحکومت میں انہیں آمریت کے خلاف تحریک چلانے کے جرم میں ایک بار پھر گرفتار کر لیا گیا۔ 4 ماہ بعد عدالتی حکم پر انہیں رہا کیا گیا۔ 1996ء میں انہیں بی این پی حکومت بھی نے عبوری حکومت کے مسئلے پر گرفتار کیا۔ پانچویں اور آخری بار انہیں حسینہ واجد کی حکومت نے آزادی بنگلہ دیش کی جنگ میں دشمن ملک پاکستان کا ساتھ دینے کے جرم میں گرفتار کر لیا۔ انہیں ایک جعلی مقدمے میں عمر قید کی سزا سنائی گئی جسے ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا۔ سپریم کورٹ بنگلہ دیش نے حکومت کی واضع ہدایات پر سزا میں تبدیلی کرتے ہوئے سزائے موت کا پروانہ ہاتھ میں تھما دیا۔ بالاخر پاکستان کی حمایت کرنے کے جرم میں 12 دسمبر 2013ء کو ڈھاکہ جیل میں انہیں پھانسی کے پھندے پر لٹکا دیا گیا۔

0 تبصرہ:

ایک تبصرہ شائع کریں