گنجائشِ ترجمہ و تفسیر پر ایک چھوٹا سا مکالمہ

on 2016-01-29


ڈاکٹر خضر یاسین صاحب، صاحبِ فکرو دانش ہیں، حقیقی سچ کی تلاش میں ان کی جدوجہد اور کوشش کو تحسین کی نظر سے دیکھا جاتا ہے، ایک بارعامر ہاشم خاکوانی صاحب نے اپنی پوسٹ میں ان کا ذکرِ خیر کیا تو ان کے حلقہِ دوستانِ فیس بک میں شامل ہونے کا شوق پیدا ہوا، خوش قسمتی سے ڈاکٹر عاصم اللہ بخش صاحب نے انہیں اگلے دن اسی پوسٹ کے کمنٹ میں ٹیگ کیا تو یہ شوق پورا ہو گیا- ان سے وقتاً فوقتاً کمنٹ باری چلتی رہتی ہے، ان سے بات کر کے ہمیشہ چیزوں کو دیکھنے کے مختلف زاویے پیدا ہوتے ہیں، ان سے آج ایک چھوٹا سا مکالمہ ہوا جسے بحثِ عامہ کیلئے یہاں پیش کر رہا ہوں 


ڈاکٹر صاحب:
قرآن مجید کے ترجمہ, تفسیر اور خلاصہ کو قبول کرنا درحقیقت حضرت رسول اللہ علیہ السلام کی نبوت پر غیر کے تصرف کو قبول کرنا ھے.
خبر بگیر کہ آواز تیشہ و دل است



راقم:
ترجمہ، تفسیر کو قائم مقام نہیں قبول کیا جا سکتا، لیکن فہم میں اس موقف کو تسلیم کر لینا گویا سمجھ اور علم کے دائرے کو حد درجہ تک محدود کرنا ہے



ڈاکٹر صاحب:
آپ بالکل درست سمجھے ھیں, یہاں سمجھ اور علم وھی ھے جو کچھ کتاب اللہ میں ھے بس وھی سمجھا جائے تو علم ھے ورنہ بے کار ھفوات ھیں.



راقم:
لیکن ایک سمجھ یا فہم کا نام ہی تفسیر ہے، کیونکہ تمام عقل انسانی برابر نہیں، اس لیے تفسیر و ترجمہ کی موجودگی کی گنجائشیں خود بخود پیدا ہو جاتی ہین



ڈاکٹر صاحب:
جس معنی کا ابلاغ متن نے کیا ھے اسی معنی کو دوبارہ بیان کرنے کی ضرورت فقط اس وقت پیش آتی ھے جب متن کو ابلاغ معنی میں ناکافی فرض کر لیا جاتا ھے. از سرے نو اسی معنی کو بیان کرنا اس بات کی علامت ھے کہ متن ناکام ھے یا از سرے نو بیان کرنے والا غلط ھے.



راقم:
اگر آپ کی بات کو درست تسلیم کر لیا جائے کہ متن کو معنی دینے سے اس از سر نو بیان کی شکل پیدا ہو جاتی ہے تو فہم اور سمجھ کو آپ کس جگہ ٹھہرائیں گے؟ یا متن کے ابلاغ کی حیثیت کیا ہوگی؟



ڈاکٹر صاحب:
متن بالذات ابلاغ ھے, آپ میری اس تحریر کو سمجھ رھے ھیں اور میرے مدعا کو از سرے نو بیان کرنے کی ضرورت نہیں. فہم انسانی کے لیے تحریر اور تقریر وسائل ابلاغ ھیں. تحریر و تقریر کو از سرے جدید تصنیف و تقریر میں لے آنا الگ شے ھے.



راقم:
میں آپ کی بات بالکل سمجھ چکا ہوں، اس کے باوجود فہم انسانی کو ضبط تحریر میں لانے کی گنجائش پھر بھی محسوس کرتا ہوں اس قطعی شرط کے ساتھ کہ وہ متن کا قائم مقام نہیں ہوتا چاہے جتنا مرضی قریب ہو جائے-



ڈاکٹر صاحب:
جزاک اللہ الخیر, انسان کے ذھنی محصولات ایک حقیقت ھیں, میں اس کا انکار نہیں کر رھا. مشکل یہ ھے کہ انہیں کس اعتبار اور لحاظ سے کلام اللہ کا آسان تر ابلاغ قبول کیا جائے؟



راقم:
دیکھیں جی آپ کا مقدمہ یہ ہے کہ ایک ہے متن جو انسان کو ایک فہم عطا کرتا ہے، پھر ایک فہم یا ترجمہ، تحریر کی شکل میں ڈھال دیا جائے تو وہ دوبارہ ویسا ہی عامل بن جاتا ہے جیسا کہ متن تھا- لیکن میں فہم یا ترجمے کو متن کے بجائے ایک فہم کی تحریری شکل تک محدود رکھ رہا ہوں جو کسی دوسرے انسان کے فہم میں معاون بن سکتی ہے- اس کی گنجائش تو خود صفہ کے چبوترے سے پیدا ہو گئی تھی اور وہ بھی ایسی صورت کہ قرآن کی زبان اور انسان کی زبان میں بھی کوئی فرق نہیں تھا- آخر ایک دوسری زبان کے حامل انسان کے لیے یہ گنجائش کیسے نا معقول کہی جا سکتی ہے

0 تبصرہ:

ایک تبصرہ شائع کریں